کون سی عقل سلیم اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ جب مسجد الحرام میں لاکھوں کی تعداد میں حج کے لئے حاجی موجود ہوں تو مسجد الحرام کے اوپر کرین موجود ہو جو طوفان آنے کی وجہ سے گر جائے اور ٢٩٠ حاجی زخمی اور جاں بحق ہوجائیں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا دفتر ایام حج میں ہر سال حجاج کی خدمت کرنے کیلئے مدینہ میں ایک دفتر قائم کرتا ہے اور حجاج کے سوالات و جوابات کیلئے علماء کے ایک گروہ کو اعزام بھی کرتا ہے ۔
ہم یہاں پر ایک تجویز پیش کرتے ہیں کہ شیعہ اور سنی دونوں مذاہب کے بزرگ علماء کی موجودگی میں ایک علمی کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ اس میں اسلامی اتحاد کی راہ میں پائی جانے والی اہم ترین رکاوٹوں کی چھان بین کی جائے اور دوسری جانب سے اسلامی وحدت کو تقویت پہنچانے والے اہم ترین اقدامات عمل میں لائے جائیں.
ہم دہشت گردی سے متعلق جرائم کی مذمت کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ کیا سعودی حکومت ان اعمال سے متفق ہے ؟ اگر متفق نہیں ہے تو پھر ان جرائم پر روک کیوں نہیں لگاتی؟ شیعہ مراکز اور مساجد کے اطراف میں حفاظتی گارڈ کیوں متعین نہیں کرتی؟
پوری دنیا نے ان جرائم اور مظالم کی مذمت کی ، سعودی علماء اور سیاستمداروں نے بھی اس کی مذمت کی لیکن وہ بہت آسانی سے یہ خیال کرلیتے ہیں کہ دنیا کے لوگ بے خبر اور سادہ لوح ہیں ۔
سب سے پہلے میں جناب عالی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے الازہر یونیورسٹی میں ''ٹروریسٹ اور افراطی گری سے مقابلہ ''کے عنوان پر کانفرنس منعقد کرکے اس میں اسلامی مذاہب کے نمایندوں کو دعوت دی اور اپنا شجاعانہ اور قیمتی وقت اس کانفرنس پر صرف کیا ، ایسی کانفرنس جس میں ''ایمان'' ، ''کفر'' اور ''جہاد'' کے مفاہیم کی صحیح تفسیر پیش کی گئی اور اسی طرح امت اسلامی کے اتحاد کو مضبوط بنانے پر تاکید کی گئی ۔
اس وقت دنیا میں عجیب و غریب بدعت شروع ہوگئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو ملک بھی دوسرے ملک کے حالات کو اپنے مفاد میں نہیں دیکھتے تو وہ بغیر کسی جواز کے اس پر حملہ کردیتا ہے اور جنگ شروع ہوجاتی ہے ، عجیب ناامنی پیدا ہوگئی ہے ۔
ہم اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مغربی دنیا کو متنبہ کرتے ہیں که اس ظالم ، ستمکار اور وحشی گروہ کی ھر قسم کی مالی امداد بند کریں کیوں کہ اس کا بدترین نتیجہ سبھی کے دامن گیر ہوگا ۔
نہیں معلوم ان خود کش حملہ کرنے والے، مردہ ضمیر اور درندہ صفت افراد کو کون سی تعلیم دی جاتی ہے جس سے وہ اپنے آپ کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ اللہ کے گھر میں بے گناہ عورتوں اور بچوں کو خاک و خوں میں غلطاں کریں؟
حقیقت یہ ہے کہ مغربی سیاستمداروں کے پاس سیاسی عقل نہیں ہے ، ورنہ ایک چھوٹے سے گروہ کے جرم کی وجہ سے اپنے آپ کو پوری دنیا کے مسلمانوں سے نہ ٹکراتے اور غور و فکر کرنے کے بجائے یہ سب نہ کرتے ۔
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ داعش وہ بدترین مخلوق ہے جنہیں کسی بھی چیز کی کوئی فکر نہیں اور تاریخ انسانیت میں کسی نے بھی اس طرح کی جنایتیں انجام نہیں دی ہیں اگر چه ان کو وجود میں لانے والے خود ان کے وجود سے پریشان ہیں ۔
جناب آقای شیخ علی سلمان کی گرفتاری کی خبر سن کر بهت افسوس هوا . بحرین کے حاکموں کو کوئی ایسا کام نهیں کرنا چاهئے جس سے وهاں کے حالات روز بروز سخت تر اور مشکل تر هوجائیں .
عاشورا ایک طرف تو مکتب اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرنے والوں بلکہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد کا سبب ہے اور دوسری طرف ظالموں کے مقابلہ میں شجاعت ، ہمت اور قیام کا تازہ خون عاشقان حسینی کی رگوں میں ڈالدیتا ہے ۔
فقہ میں اگر خوف اور ضرر کا کوئی مسئلہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس کو ا نجام نہ دیں ، پھر کس طرح اس قدر نقصان کے سنگین مسئلہ کے متعلق حرام ہونے کا فتوی نہ دیا جائے جبکہ اہل خبرہ اس کے نقصانات کی گواہی دیتے ہیں ۔
اب مغربی ممالک، امریکہ اور اسرائیل کوعلاقہ میں اپنے لئے امن ایجاد قائم کرنے کا ایک ہی راستہ دکھائی دے رہا ہے اور وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے، جبکہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف بہت کم ہے ، قرآن کریم کے متعلق مسلمانوںکا آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، حج کے اکثر مسائل ان کے درمیان مشترک اور ایک جیسے ہیں ۔
حجة الاسلام والمسلمین حاج شیخ افتخار حسین انصاری جو کہ ہندوستان میں جموں اور کشمیر کے علاقہ میں برجستہ عالم دین تھے ،کے انتقال پر ملال پر بہت افسوس ہوا۔ یہ عالم ربانی ، پارلیمنٹ میں جموں اور کشمیر کے شیعوں کے نمائندہ تھے ، اس کے علاوہ انجمن شیعی کشمیر کے موسس اور بانی بھی تھے ۔
تمام علمائے اسلام کوان تکفیری گروہوں کے افکار کی نفی کرنے کی کوشش کریں اور دنیا سے کہیں کہ اسلام ، محبت اور رحمت کا دین ہے ، اس کا سخت گیری اور غلط کاموں سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔
تمام اسلامی مذاہب سے انتہاء پسندی کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ مسئلہ دنیائے اسلام میں داخلی جنگوں اور اختلافات کا سبب بن گیا ہے ۔ اسلام ، رحمت، مودت اور محبت کا دین ہے ، حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی رحمت للعالمین ہیں ،اسلام میں تشدد اور انتہاء پسندی کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔
اب مشرق وسطی بلکہ پوری دنیا کیلئے تکفیری اور داعش نامی خطرہ لاحق ہوگیا ہے ، یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں اور علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ لوگ اسلام سے خارج ہیں، اسلام ، رحمت، محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا دین ہے ۔
ابھی حال ہی میں واٹیکان کے بعض بزرگ راہنمائوں نے دنیائے اسلام کے علماء سے درخواست کی ہے کہ وہ شمال عراق میں عیسائیوں اور دینی اقلیت کے خلاف داعش کے تکفیری گروہ کے سفاکانہ حملوں کا جواب دیں ۔
غزه کی جنگ نے اپنے تمام مصائب کے باوجود دنیائے اسلام اور بشریت پر اپنا مثبت اثر یه چهورا که پوری دنیا کے سامنے غاصب اسرائیل کی حقیقت کو واضح کردیا اور دنیاوالوں کے اعتماد کو حقوق بشر کا دعوای کرنے والوں سے سلب کرلیا .
حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) کی شہادت کے ایام کا احترام کرنا سب پر لازم ہے ،اس بناء پر دونوں مہینوں یعنی ماہ جمادی الاول اور ماہ جمادی الثانی کی مناسبتوں پر عزاداری قائم کی جائے ۔
فیس بُک ایسے دور و دراز شہر کی طرح ہے جس میں تمام علماء ،دانشوروں ، چورروں ، شکار کرنے والوں اور مختلف قسم کے فساد میں آلودہ لوگوں کی دُکانیں ہیں اور ان دُکانوں میں کبھی ضرورت زندگی کے وسائل ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر و بیشتر میں گناہ ، فساد اور اخلاقی انحراف پایا جاتا ہے جو سب کے اختیار میں ہوتا ہے ۔
مذہبی انجمنوں ، مساجد اور امام بارگاہوں میں عزاداری حسینی کے استقبال میں جو آمادگی دکھائی دے رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انشاء اللہ اس سال بھی بیدار کرنے والی اور دشمن کی کمر کو توڑنے والی یہ رسومات ہر سال سے زیادہ بہتر طریقہ سے انجام دی جائیں گی ۔
گذشتہ زمانہ میں اس کام کے لئے یوروپ کے دو تین ملک، امریکہ کے ساتھ مل جاتے تھے اور اس کا نام بین الاقوامی اتفاق رائے رکھتے تھے اور اب یوروپ کے ان ملکوں کو بھی دور دفعہ کردیا گیا ہے اور امریکہ خود دنیا کے دوسرے ملکوں کے متعلق فیصلہ کرنا چاہتا ہے ، وہ بھی جھوٹے بہانوں کو ڈھال بناتے ہوئے ۔ ہماری رائے کے مطابق اس وقت کی یہ سب سے بڑی ذلت اور رسوائی ہے ۔
آج دنیائےاسلام کی سب بڑی مشکل وھابی ہیں جو اپنی وحشی گری کےذریعہ مسلمانوں کی عزت،آبرو،حیثیت اور اسلامی بنیادوں کو کاری ضرب لگانے میں مصروف ہیں، اور وہ اسلام جو آیین رحمت و محبت ہےاسے شدت پسندی،خشونت،خونریزی اور بے رحمی کا دین معرفی کرنے میں مصروف ہیں ۔
حج کے احرام کی طرح اعتکاف بھی انسان کو مادی اور دنیوی مظاہر سے جدا کردیتا ہے ، اعتکاف کرنے والے انسان کو خانہ خدا میں اپنے معبود سے ارتباط پیدا کرنے کا موقع مل جاتا ہے تاکہ وہ اپنی آئندہ زندگی کے متعلق مصمم ارادہ کرسکے اور اگر ماضی میں کسی جگہ پرغلطی کی ہے تو اس کی اصلاح کرسکے ۔