آج کی دنیا کیلئے اخلاقی فساد سب سے بڑا چیلنج ہے

آج کی دنیا کیلئے اخلاقی فساد سب سے بڑا چیلنج ہے


اب مشرق وسطی بلکہ پوری دنیا کیلئے تکفیری اور داعش نامی خطرہ لاحق ہوگیا ہے ، یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں اور علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ لوگ اسلام سے خارج ہیں، اسلام ، رحمت، محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا دین ہے ۔‌

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے ویٹیکن کے مذہبی اعضاء سے ملاقات میں آج کی دنیا کو سب سے زیادہ چیلنج کرنے والے مسائل جنگ اور اخلاقی مفاسد ہیں ۔
انہوں نے مزید فرمایا : آسمانی ادیان ان فسادات کو ایجاد ہونے سے بہت زیادہ حد تک روک سکتے ہیں ، لیکن اس کی ایک شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ آپس میں متحد ہوجائیں اور فساد، جنگ اور گناہ سے جنگ کے لئے ایک مستقل پروگرام میں سب شرکت کریں ۔
معظم لہ نے موجودہ حالات میں مختلف ادیان کے ماننے والوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات اور میٹینگ کرنے کو ضروری سمجھتے ہوئے فرمایا : ذاتی کام یا کسی خاص گروہ کا کام ممکن ہے کہ تاثیر گزار ہو لیکن سب کے ایک ساتھ مل کرکام کرنے سے زیادہ اس کی تاثیر نہیں ہے ۔
انہوں نے مزید فرمایا : آسمانی مذاہب منجملہ عیسائیت سے ہمارے مشترکات بہت زیادہ ہیں ، ہم سب گناہ اور اخلاقی فساد کے مخالف ہیں ، ہمارا عقیدہ ہے کہ انسان کو متقی اور با اخلاق ہونا چاہئے ، اسی طرح ہمارا عقیدہ ہے کہ آج کی دنیا میں جو خون بہایا جارہا ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ، ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو ان کاموں سے سب کو منع کریں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے علاقہ میں دہشت گرد گروہ داعش کے خطروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اب مشرق وسطی بلکہ پوری دنیا کیلئے تکفیری اور داعش نامی خطرہ لاحق ہوگیا ہے ، یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں اور علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ لوگ اسلام سے خارج ہیں، اسلام ، رحمت، محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا دین ہے ۔
انہوں نے بیان کیا : ہمیشہ اسلامی ممالک میں منجملہ ہمارے ملک میں عیسائی، یہودی اور دوسری اقلیتوں کے لوگ موجود ہیں اور آج بھی ہمارے پارلیمنٹ میں ان کے نمائندہ موجود ہیںاور یہ لوگ اپنی مذہبی رسومات کو انجام دینے میں کامل طور پر آزاد ہیں ، جبکہ ہمارے دشمن ہمارے خلاف پروپکینڈہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم دوسرے مذاہب کی محدودیت کے قائل ہیں ، جبکہ ایسا نہیں ہے ۔
معظم لہ نے یاد دہانی فرمائی : اسلامی جمہوریہ ایران کے قانون لکھنے میں عیسائیوں، یہودیوں اور زردتشت کے نمائندہ موجود تھے ، میں بھی مسلمانوں کا نمائندہ تھا ، دوسرے مذاہب کو بنیادی قانون لکھنے میں شریک کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہم دوسرے مذاہب کا احترام کرتے ہیں ۔
انہوں نے تاکید فرمائی : اب ہمارا عقیدہ ہے کہ پوری دنیا کے مذاہب کے راہنما ایک بلند آواز اور بہترین فریاد کے ساتھ ان حوادث کی مذمت کریں جو شام، شمال عراق اور دوسرے علاقوں میں انجام دئیے جارہے ہیں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے کیتھولک دنیا کے رہبر فرانسس پادری کے نام ارسال شدہ اپنے پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جس وقت ویٹیکن نے اعلان کیا کہ شمال عراق میں عیسائیوں کو قتل کیا جارہا ہے اور علمائے اسلام ان سے دفاع کریں تو میں نے جناب پادری کو ایک خط بھیجا کہ ہم ہمیشہ جرائم کی مذمت کرتے ہیں چاہے وہ مسلمانوں پر ہوں یا غیر مسلمانوںپر واقع ہوں اور ان سے خواہش کی کہ آپ بھی ہماری طرح شام اور عراق کے جرائم کی مذمت کریں چاہے وہ مسلمانوں پر ہو رہے ہوں یا عیسائیوں پر ہورہے ہوں ۔
انہوں نے مزید فرمایا : آج کی دنیا میں لوگ مادہ پرستی سے اُکتا چکے ہیں اور اس کو ایک غلط راستہ سمجھتے ہیں ،ہمارے اور آپ کے لئے یہ ایک بہترین موقع ہے تاکہ ہم دینی مسائل کو انسانی معاشرہ میں پیش کرسکیں ، خصوصا جوانوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے اس لئے جوانوں کی مدد کے لئے جلدی کریں ، خدا اور اخلاق  پر ان کے عقیدہ کو مستحکم کریں تاکہ ان کو فساد اور گناہوں سے نجات دلا سکیں ۔
معظم لہ نے اپنی گفتگو کے آخیر میں ویٹیکن کی مذہبی انجمن کے اعضاء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : مجھے امید ہے کہ آپ میرا پیغام اپنے دوستوں تک پہنچائیں گے اوران سے کہیں گے کہ ہم دنیا کے موجودہ مسائل کو حل کرنے کیلئے آمادہ ہیں اور فسادات سے مقابلہ کرنے کیلئے تمہاری مدد کو تیار ہیں ۔

 

captcha