اسلامی ممالک ایک کے بعد ایک ظاہری طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں تخریب ہورہے ہیں

اسلامی ممالک ایک کے بعد ایک ظاہری طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں تخریب ہورہے ہیں


اس وقت دنیا میں عجیب و غریب بدعت شروع ہوگئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو ملک بھی دوسرے ملک کے حالات کو اپنے مفاد میں نہیں دیکھتے تو وہ بغیر کسی جواز کے اس پر حملہ کردیتا ہے اور جنگ شروع ہوجاتی ہے ، عجیب ناامنی پیدا ہوگئی ہے ۔‌

بسم الله الرحمن الرحيم

ایک مرتبہ پھر اسلامی ملک کی تخریب یعنی یمن مسلمانوں کے ہاتھوں اور انہی کے پیسوں سے خراب ہونا شروع ہوگیا ۔
سامراجی طاقتیں ، طاقت ور اسلام کو اپنے ناجائز مفاد کے راستہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کے لئے عجیب و غریب پروگرام مرتب کررکھے ہیں تاکہ وہ ایک جگہ بیٹھ کر مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکائیں اور وہ اپنے ممالک کو اپنے ہاتھوں سے خراب کرلیں اور عظیم طاقت کو ختم کردیں ۔
انہوں نے فرمایا : تعجب کی بات یہ ہے کہ اسلام کا کھلا دشمن اسرائیل علی الاعلان یمن پر سعودی جارحیت کی حمایت کررہا ہے اور ان کی مدد کے لئے تیار ہے ، لیکن پھر بھی مسلمانوں ان کی خواہشات کو پورا کررہے ہیں ۔
اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ جب بھی کسی مظلوم ملک پر کوئی جارحیت ہوتی ہے تو عالمی سماج تماشائی بنا رہتا ہے اور کوئی بھی مظلوم کی فریاد کو نہیں پہنچتا اور خاموشی اختیار کرکے اس جلتی ہوئی آگ پر تیل چھڑکتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ صرف ایک نام نہاد ادارہ ہے اور اس میں اب اتنی بھی طاقت نہیں رہ گئی ہے کہ وہ اس طرح کی ناجائز اور غیر قانونی کاروائیوں کی مذمت کرسکے ۔
دوسری طرف اتحادیہ عرب جس کے تشکیل ہونے کا فلسفہ عرب ممالک کے حقوق کی حمایت کرنا ہے ، اس آگ کو بھڑکائے ہوئے ہے اور اسلامی ممالک کو آپس میں لڑنے کی ترغیب دلاتا ہے ۔
ان سب سے زیادہ افسوس کی بات حجاز کے مفتیوں کے فتووں پر ہے ، چند روز قبل انہوں نے ایک کنفرانس قائم کی تھی اور آپس میں مسلمانوں کے خون بہانے کی مذمت کی تھی اور آج یمن پر سعودی کے ١٨٠ ڈگری منحرف حملہ کو حکیمانہ بتاتے ہیں اور اس ویران گری کو جائز سمجھتے ہیں ۔
اگر بہت ہی غور وفکر سے کام لیا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یمن نے اپنے ملک میں انقلاب کیا اور اس ملک کی اکثریت گزشتہ فاسد حکومت کے خلاف انقلاب کے لئے کھڑی ہوگئی اوراس حکومت کے صدرنے اپنی جان کے خوف سے بھاگ کر دوشرے ملک میں پناہ لے لی ، کیا اس سے بہتر کوئی راستہ ہوسکتا تھا کہ ان کی مدد کی جاتی تاکہ وہ چین و سکون سے زندگی بسر کرتے اور اگر ان کا داخلی اختلاف تھا تو وہ مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جاتا ؟
اس وقت دنیا میں عجیب و غریب بدعت شروع ہوگئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو ملک بھی دوسرے ملک کے حالات کو اپنے مفاد میں نہیں دیکھتے تو وہ بغیر کسی جواز کے اس پر حملہ کردیتا ہے اور جنگ شروع ہوجاتی ہے ، عجیب ناامنی پیدا ہوگئی ہے ۔
اور ان سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ٥٠ سال سے زیادہ ہوگئے ہیں کہ اسرائیل نے ایک اسلامی ملک کے اہم اور حساس حصہ پر قبضہ کررکھا ہے لیکن یہ طوفان اس آگ کو بجھانے کے لئے قائم نہیں ہوا۔ حزب اللہ لبنان کے مجاہد صدر کے بقول ان کی طرف ایک ہوا بھی نہیں چلی ،لیکن اب آئو دیکھو کہ امریکہ اور اسرائیل کے تحریک کرنے کی وجہ سے کتنا بڑا طوفان برپا کردیا ۔
سعودی حکمراں جان لیں اگر یہ آگ خاموش نہیں کی اور احتمال قوی یہ ہے کہ یمن کے انقلابی کامیاب ہوجائیں گے ، یا اگر یہ جنگ کئی سال تک جاری رہی تو دونوں ملک ویرانہ میں تبدیل ہوجائیں گے ۔لہذا بہتر ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے اپنے کاموں پر نظر ثانی کریں اور ضرر و نقصان کوجتنی جلدی ہوسکے ختم کردیں ۔

 

مطلوبه الفاظ :
captcha