شیعیت کے آغاز کی کیفیت

شیعیت کے آغاز کی کیفیت


اصول اور فر وع میں شیعوں کے دوسرے عقاید، مذہب تشیع کے صادق ہونے میںبہترین کردار ادا کرتے ہیں۔ تشیع کی بنیاد اسی عقیدہ پر قائم ہے کہ اسلامی رہبری ”وصایت“ کی صورت میں حضرت علی (علیہ السلام) اور ان کی اولاد میں باقی اور جاری ہے ۔‌

تشیع ، اعتزال کی طرح ایک کلامی مسلک نہیں ہے تاکہ ہم اس کے آغاز اور اس کے وجود میںآنے کی علت و اسباب کے بارے میں بحث کریںاور خوارج کی طرح کسی حادثہ کی وجہ سے بھی وجود میں نہیں آیا ہے ، بلکہ تشیع اس کو کہتے ہیں جس کا اعتقاد ہے کہ اسلامی رہبری ”وصایت“ کی صورت میں امام علی (علیہ السلام) اور ان کے خاندان میں چلی آرہی ہے اور یہی تشیع کی روح اور بنیادہے ۔
اصول اور فر وع میں شیعوں کے دوسرے عقاید، مذہب تشیع کے صادق ہونے میںبہترین کردار ادا کرتے ہیں۔ تشیع کی بنیاد اسی عقیدہ پر قائم ہے کہ اسلامی رہبری ”وصایت“ کی صورت میں حضرت علی (علیہ السلام) اور ان کی اولاد میں باقی اور جاری ہے ۔
اور اس فکرکو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خود اپنی زندگی میں پروان چڑھایا ہے ، مہاجرین اور انصار کے ایک گروہ نے اس عقیدہ کو اسی وقت قبول کرلیا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وفات کے بعد وہ اسی عقیدے پر باقی رہے ، تابعین کا ایک گروہ اسی عقیدہ پر باقی رہا اور اس اصل پر اعتقاد اسی زمانہ سے آج تک چلا آرہا ہے ۔
اس بناء پر تشیع، تاریخ اسلام کا ایک جزء ہے اور اس کا آغاز بھی صدر اسلام ہی سے ہوا ہے ، اسلام اور تشیع ایک حقیقت کی دو تصویریں ہیں، اور ایک دوسرے کے ہمزاد ہیں جو ایک ساتھ دنیا میں آئے ہیں۔
اس حقیقت کی دلیل اختصار کے ساتھ یہ ہے :
۱۔ علی (علیہ السلام) کے فضائل کو بیان کرنا
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی پوری زندگی میں کئی بار مختلف مناسبتوں پر امام علی (علیہ السلام) کے فضائل کو بیان کیا ہے اور اپنے بعدحضرت علی (علیہ السلام) کو اسلامی امت کے رہبر کے عنوان سے تعارف کروایا اور اس کے اوپر بہت سی تاریخیں گواہ ہیں۔
جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے لوگوں کے سامنے حضرت علی (علیہ السلام) کے فضائل بیان کئے تو اصحاب کا ایک گروہ حضرت علی (علیہ السلام) کے گرد جمع ہوگیا اور وہ نمونہ کے طور پر آپ کے برجستہ فضائل و مناقب کی پیروی کرنے لگا۔
ب : دعوت کے آغاز کی حدیث
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تاکہ لوگوں کو بت پرستی کی طرف سے توحید کی طرف دعوت دیں، شروع میں آپ چھپ کر تبلیغ کی دعوت دیتے رہے ، یہاں تک کہ آیت ”وانذر عشیرتک الاقربین“ (۱) نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بنی ہاشم کے مشہور و معروف افراد کی دعوت کی اور اپنی نبوت کو ان کے سامنے پیش کیا اور فرمایا:
تم میں سے کون مجھ پر ایمان لائے گا اور اس مقصد میں میری مدد کرےگا تاکہ وہ میرا بھائی، جانشین اور وصی بن جائے؟
حضرت علی (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی کھڑا نہیں ہوا ، آپ نے اپنی دعوت کو تین مرتبہ دہرایا ،ہر دفعہ کسی نے بھی آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا، صرف حضرت علی (علیہ السلام) کھڑے ہوتے تھے اور آپ کی حمایت کا اعلان کرتے تھے ، اس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : یہ تمہارے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہے ، لہذا ان کی باتوں کو سنو اور ان کی پیروی کرو (۲) ۔
ج : حدیث منزلت :
مورخین اور محدثین نے بیان کیا ہے : پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ، لوگوں کے ساتھ جنگ تبوک کے لئے روانہ ہوئے توحضرت علی (علیہ السلام) نے عرض کیا : میں بھی آپ کے ساتھ چلوں ؟ آنحضرت نے فرمایا : نہیں، حضرت علی (علیہ السلام) گریہ کرنے لگے، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے آپ سے فرمایا: کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہو جو موسی کی ہارون سے تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا؟ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ میں چلا جاؤں اور تم یہاں پر میرے وصی و جانشین رہو(۳) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے استثناء کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نبوت کے علاوہ دوسرے تمام منصب جو ہارون کے پاس تھے وہ سب حضرت علی (علیہ السلام) کے لئے ثابت ہیں۔
د : مشرکین سے برائت کا اعلان
جب سورہ توبہ کی آیات نازل ہوئیں جس میںمشرکین سے امان کو ختم کردیا گیا ہے ،پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان آیات کو ابوبکر کو سکھایا اور اس کو چالیس آدمیوں کے ساتھ مکہ کی طرف بھیجا تاکہ وہ ان آیات کو عید اضحی کے روز لوگوں تک پہنچائے ۔ لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا: ان آیات کی تبلیغ صرف آپ یا آپ کے خاندان میں سے کوئی ایک شخص کرسکتا ہے ۔جس کی وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس خطیر ذمہ داری کے لئے حضرت علی (علیہ السلام) کا انتخاب کیا اور فرمایا:
ابوبکر کی طرف روانہ ہوجاؤ اور اس سے ان آیات کو لے لو اور ان کے ذریعہ مشرکین سے عہد و پیمان کرو یعنی جو لوگ حجاز کے اطراف سے مکہ آئے ہیں ان کے لئے ان آیات کی تلاوت کرو(۴) ۔
ھ: مباہلہ میں شرکت
جب نجران کے عیسائیوں نے جزیہ دینے سے انکار کردیا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مباہلہ کرنے کیلئے تیار ہوگئے ، خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو مباہلہ کا حکم دیا :
فَمَنْ حَاجَّکَ فیہِ مِنْ بَعْدِ ما جاء َکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ اٴَبْناء َنا وَ اٴَبْناء َکُمْ وَ نِساء َنا وَ نِساء َکُمْ وَ اٴَنْفُسَنا وَ اٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّہِ عَلَی الْکاذِبین“ (۵) ۔ پیغمبر ،علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزندوں،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام)، حضرت فاطمہ،(علیہا السلام) امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کو بلا کر فرمایا: خدایا یہ میرے اہل خاندان ہیں، اور اس خطرناک موقع پر آپ نے کسی اور کو دعوت دنہیں دی ۔ گویا زمین کے اوپر ان کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعاء پر آمین کہتا۔
و : حدیث غدیر
حدیث غدیر ایسی متواتر حدیث ہے جس کو صحابہ اورتابعین نے ہر زمانہ میں نقل کیا ہے ، اس وقت ہم اس کے تواتر اور منابع کو بیان نہیں کرنا چاہتے ،بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ اس تاریخ اسلام کے اس اہم واقعہ کو بیان کریں اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اونٹوں کے کجاؤں پر جو بات بیان کی ہے اس کو آپ کے سامنے بیان کریں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا :
من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ “۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں، ان تمام باتوں کی وجہ سے مہاجرین و انصار کا ایک گروہ حضرت علی (علیہ السلام) کے پاس جمع ہوگیا اور آپ کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد امت کی رہبری اور ہدایت کے لئے انتخاب کرلیا۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ کے شاعرحسان بن ثابت نے آنحضرت (ص) کے اس بیان کو اپنے اشعار میں بیان کیا ہے (۶) ۔ (۷) ۔

 


1 . شعراء : آیه 214.
2 . مسند احمد: ج1، ص111، تاریخ طبرى: ج2، ص62 ـ 63، تاریخ ابن اثیر: ج2، ص40 ـ 41.
3 . صحیح بخارى : ج5، باب فضائل اصحاب پیامبر(صلى الله علیه وآله)، باب مناقب على(علیه السلام)، ص 24.
4 . تفسیر طبرى : ج10، ص47، تفسیر در المنثور: ج4، ص122 و منابع دیگر.
5 . آل عمران : 60.
6 . وقال له قم یا علىّ فانّنى *** رضیتکَ مِن بعدی اماماً وهادیاً.
7-سیماى عقاید شیعه، ص28.

captcha