امام محمد تقی علیہ السلام کی بیٹی ، حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت امام حسن عسکری علےہ السلام کے پاس گئتو آپ نے فرمایا کہ اے پھوپھی آپ آج ہمارے ہی گھر میں رہئے کیونکہ خداوندعالم مجھے آج بطن نرجس سے ایک وارث عطافرماے گا۔جناب حکیمہ نے کہا :بےٹے!میں تونرجس میں حمل کے کچھ بھی آثارنہیں پاتی،بہر حال جب آدھی رات گذرگئی تومیں اٹھی اورنمازتہجدمیں مشغول ہوگئی اورنرجس بھی اٹھ کرنمازتہجدپڑھنے میں مشغول تھیں کہ وہ مولود بھی ہمارے ساتھ ہم آواز ہوگیااچانک میرے اور نرجس کے درمیان ایک پردہ حائل ہوگیا اور کچھ دیر بعد وہ پردہ برطرف ہوگیا ،اس کے بعد میں نے دیکھا کہ تمام حجرہ روشن ومنورہوگیااور ایک مولود مسعود زمین پرسجدہ میں پڑاہوا ہے اور کلمہ شہادت کو آسمان کی طرف بلند کرکے شہادتین پڑھ رہا ہے۔ حضرت امام حسن عسکری علےہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی اے پھوپھی ! میرے فرزند کو میرے پاس لائےے میں لے گئی جبکہ وہ بچہ پاک و پاکیزہ تھا اور اس کے داہنے ہاتھ پر لکھا ہوا تھا ”جاء الحق زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا“۔ بچے نے اپنے والد کو سلام کیا اور آپ نے اپنے اس پارہ تن کو زمین پر بٹھا دیا اور اس کے سر پر دست شفقت پھیرا اورکہا کہ اے فرزند !خدا کے حکم سے کچھ بات کرو ،امام عصر(علیہ السلام )نے استعاذہ پڑھنے کے بعد اس آےت مبارکہ کی تلاوت فرمائی : ونرےدان نمن علی اللذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم الوارثین ، جس کا ترجمہ ےہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ احسان کریں ان لوگوں پرجوزمین پرکمزورکردئےے گئے ہیں اور ان کوامام بنائیں اورانھیں کوروئے زمین کاوارث قراردیں ۔
اس کے بعد روح القدس کچھ ملائکہ کے ساتھ حضرت ولی عصر (علیہ السلام)کو عرش الہی پر لے گئے تاکہ اس کو زینت دے اور اس کے بعد اس کی ماں کی آغوش میں واپس لا کر دے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام سوسن یانرجس یا ریحانہ تھا۔
آپ کے القاب مہدی ، بقیة اللہ ،قائم ،حجة اللہ ، خلف الصالح ، صاحب ا لعصر، صاحب الامر ، والزمان القائم اورالمنتظرہیں، آپ کا اسم مبارک محمد اور کنیت ابوالقاسم ہے، مام مہدی ،شکل وشباہت، خلق وخلق، شمائل وخصاےل ،اقوال وافعال میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)سے مشابہہ ہیں۔ آپ کی پےشانی کھلی ہوئی ہے اورآپ کے ابرو گھنے اورباہم پیوستہ ہیں ۔ آپ کی ناک باریک اوربلند ہے آپ کے دانت چمکداراورکھلے ہوئے ہیں آپ کی آنکھیں بڑی اورآپ کا چہر ہ نہاےت نورانی ہے ۔ آپ کے داہنے رخسارہ پرایک تل ہے(۱)۔
۱۔ حوادث الایام، ص ۱۷۱۔