اے اسماء میرے بیٹے کو لاؤ ، اسماء بنت عمیس، امام حسین(علیہ السلام) کو سفید کپڑے میں لپیٹ کرپیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)کی خدمت میں لائیں ، آنحضرت نے آپ کو گودمیں لیا اور آپ کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا: خدا وند عالم سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے چونکہ علی کی نسبت آپ سے وہی ہے جو ہارون کو موسی سے تھی لہذا اس بچہ کانام ہارون کے چھوٹے بچے کے نام پر شبیر رکھ دو اور عربی میں اس کو حسین کہتے ہیں، آنحضرت نے آپ کو بوسہ دیا اور گریہ بھی کیا، اور فرمایا: تم پر بہت بڑی مصیبت آنے والی ہے ، خدا وندعالم ! اس کے قاتلوں پر لعنت کرے، اے اسماء یہ خبر فاطمہ کو نہ دینا۔
ساتویں دن پھر آپ نے فرمایا: میرے بیٹے کو لاؤ ، آنحضرت نے سیاہ اور سفید دنبہ ذبح کیا اور آپ کا عقیقہ کیا اور امام علیہ السلام کے بال تراش کر ان کے برابر چاندی کو تصدق کیا اور فرمایا: اے اباعبداللہ تمہارا قتل ہونا میرے لئے کتنا سخت ہے اور اس کے بعد آپ نے گریہ فرمایا: اسماء نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یہ کیسی خبر ہے جس کے بارے میں آپ نے ولادت کے دن بھی فرمایا اور آج بھی فرما رہے ہیں اور گریہ کررہے ہیں ، آپ(ص) نے فرمایا میں اپنے اس فرزند پر گریہ کررہاہوں جس کو بنی امیہ کا ایک گروہ قتل کرے گا ، خدا میری شفاعت ان تک نہیں پہنچائے گا ۔ خدا وندعالم ! تو حسن و حسین کو دوست رکھ اور ان کو دوست رکھ جو ان کو دوست رکھیں اور ان پر لعنت کر جوان سے دشمنی رکھے ایسی لعنت جو زمین و آسمان کو بھر دے(۱)۔
۱۔ حوادث الایام، ص ۱۶۴۔