عرصہ دراز گزرجانے کے باوجود عاشورا کی نہ کوئی اہمیت کم ہوئی ہے اور نہ اس میں کوئی ضعف پیدا ہوا ہے بلکہ ہر سال عاشورا کے پروگرام، عزاداری اور اربعین کی رسومات کو بہت ہی عظمت و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے ، یہ بات بتاتی ہے کہ یہ واقعہ اور انقلاب دوسرے تاریخی تمام حوادث کے برخلاف ، مادی اہداف سے تشکیل نہیں پایا ہے ۔
والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اصلاح کریں ، بچہ اپنے ماں او رباپ کی رفتار و کردار کو دیکھتا ہے اور اس کی عکاسی کرتا ہے اور ان کے تمام حرکات وسکنات بچہ کے ذہن میں بیٹھ جاتے ہیں ، جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو وہ خود بھی متوجہ نہیں ہوتا اوران حرکات و سکنات کو دہراتا ہے ۔
ہمیں موجودہ دنیا اور مستکبرین کے صفات سے آشنائی حاصل کرنا چاہئے ، اگر یہ آشنائی ہوجائے تو کبھی بھی دھوکہ نہیں کھائیں گے ، لیکن اگر آشنائی نہ ہو تو انسان دھوکہ کھاتا ہے ، عاقل انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے دشمن کوپہچانے اور دنیا کے مستکبرین کی اجاره داری کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو ۔
امریکی چاہتے ہیں کہ ایران کے پاس کوئی قدرت و طاقت نہ ہو اور اس طرح وہ ذلیل و خوار ہوجائے ، یہی وجہ ہے کہ امریکی قابل اعتماد نہیں ہیں اور آج بھی وہ ماحولیات اور یونسکو جیسے قوانین سے ایک طرفہ خارج ہو رہے ہیں ، اگر عہد و پیمان بندھا ہوا ہے تو پھر ایک طرفہ خارج ہونے کے کیا معنی ہیں ؟
اسلامی ممالک کب تک خاموش رہیں گے ؟ کیا اسلامی کانفرنس کمیٹی کو جس میں ٦٠ اسلامی ممالک موجود ہیں ،برما کے متعلق آواز نہیں اٹھانا چاہئے؟ اور ان مظلوموں کی حمایت نہیں کرنا چاہئے؟
رسول اللہ (صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم) کا نیا اسلامی انقلاب دو وجوہات کی بنیاد پر نا اہلوں کے ہاتھوں میں پہنچ گیا :
اول : تمام صحابہ کی عدالت اور ان کے اجتہاد کا مسئلہ ۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہارے اطراف میں منافقین موجود ہیں اور تم ان کو ظاہری طور پر نہیں پہچانتے ہو ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ پیغمبر اکرم(صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم) کے اطراف میں تھے ، یہاں تک کہ منافقین جن کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے ، کیا وہ سب عادل تھے اور حقیقت کو بیان کرتے تھے؟
دوسری وجہ : صحابہ کے اجتہاد کا مسئلہ تھا ، ایسا اجتہاد جو ان کو ہر طرح کا جرم کرنے کی اجازت دیتا تھا ، بیعت کو توڑنے سے لے کر حضرت رسول خدا (صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم) کی بیٹی کے گھر کو جلانے تک، یعنی ہر طرح کا جرم انجام دیتے تھے ، ایسا جھوٹا اجتہاد دجس کے ذریعہ انہوں نے جنگ جمل بپا کی اور اس میں ١٧ ہزار لوگ قتل ہوئے ، یا جنگ صفین میں عہد و پیمان کو توڑکر ایک لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا ۔
امریکہ نے منصوبہ بنایا ہے کہ جس طرح شام اور یمن کو ویران کیا ہے اسی طرح دوسرے تمام اسلامی ممالک کو بھی ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے لئے آمادہ کردے تاکہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے ممالک کو نیست و نابود کردیں اور اس طرح امریکہ کا خراب شدہ اسلحہ بھی فروخت ہوجائے گا ۔
ایک زمانہ تھا جب بعض لوگ یہ کہتے تھے کہ امریکہ سے لڑائی مول نہ لیں اور ان کے ساتھ مصالحت اور دوستی کرلیں کیونکہ اگر ہم دوستی کریں گے تووہ شرمندہ ہوجائیں گے اور ہم سے دوستی کرلیں گے ۔ یقینا بعض لوگوں کا یہ عقیدہ تھا ،لیکن آج حجاب ہٹ گئے اور معلوم ہوگیا کہ یہ لوگ ''وعدہ خلافی'' کرتے ہیں، ڈیڑھ سال تک مذاکرات کئے اور اب انہی مذاکرات کی مخالفت کررہے ہیں ۔
آل خلیفہ کو ایران کے شاہ اور قذافی کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاهئے .آل خلیفہ اس دن کا انتظار کرے جس دن اس کو ناحق خون بهانے کا حساب دینا ہوگا اور اس روز اس سے انتقام لیا جائے گا ۔
یہ ایک طرح سے ''حلب'' کی شکست کی تلافی کرنا چاہتے ہیں ، خوشی کی بات یہ ہے کہ دنیا اب متوجہ ہوگئی ہے اور وہ امریکہ کے مگر مچھ کے آنسووں سے دھوکہ نہیں کھاتی ، تمہارے تمام منافقانہ پروگراموں اور کاموں کے تناقض کی طرف متوجہ ہوچکے ہیں ۔
آج پردے ہٹ گئے ہیں اور ثابت ہوگیا ہے کہ مغربی فقط قدرت کی زبان سمجھتے ہیں ، قانون کی زبان، حقوق بین الملل کی زبان، عالمی مراکز کی زبان ایسے مسائل ہیں جن کی طرف مغربی متوجہ نہیں ہوسکتے ۔
زیارت اربعین کو تربیت کے بلند و بالا مکتب میں تبدیل کرنا چاہئے ، اپنے تمام گناہوں کو توبہ کے پانی سے دھوئیں ،اخلاق رذیلہ کو ترک کریں ا ور تربیت حاصل کریں ۔
مغربی جمہوریت اور تہذیب و ثقافت سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے ، انہیں نہیں معلوم کہ وفا کیا ہے اور یہ اپنے وعدوں پر پابند نہیں ہیں اور یہ لوگ جو حقوق بشر کا نعرہ لگاتے ہیں ، اس پر بھی پابند نہیں ہیں ، البتہ افسوس کہ ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ بعض ممالک ہیں جو مغرب والوں کے دلدادہ ہیں ۔
یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ جب بھی فشارزیادہ ہوتا ہے تو امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی طرف توجہ زیادہ ہوجاتی ہے ، کربلا میں ساٹھ لاکھ زائرین کے مجمع کی مثال بے نظیر ہے ۔
بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ علمائے اہل سنت نے چیچنیا میں بہت ہی صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ وہابیت کا شمار ، اہل سنت کے مذاہب میں نہیں ہوتا اور ہم بھی کہتے ہیں کہ وہابیت ہمارے مذہب کا جزء نہیں ہے ، الحمدللہ ان کے متزلزل ہونے کے مقدمات فراہم ہورہے ہیں اور دنیا بیدار ہورہی ہے کہ وہابی لوگ کس قدر خطرناک افراد ہیں ۔
ان لوگوں نے کچھ دنوں پہلے سعودیہ کا نام بچوں کا قتل عام کرنے والوں کی بلیک لیسٹ میں شامل کیا مگر ناگہاں یہ ورق پلٹ گیا اور سعودیہ کا نام اس لیسٹ سے حذف کردیا گیا
حرمین شریفین سے متعلق مسائل کا کامل طور پر حل وفصل ہوناضروری ہے اوریہ اس صورت میں ممکن ہے جب حج کے مسائل سے متعلق ماہرین افراد ، اسلامی تعاون تنظیم کی طرف سے حرمین شریفین کی نظارت کیلئے منتخب ہوں اور سعودی عرب بھی اس کا ایک عضو ہوسکتا ہے ۔
تمام عراقی متحد ہوجائیں اور اپنے ملک سے دشمنوں کو باہر نکال دیں ، مرجعیت کی کوئی سرحد نہیں ہے اور یہ سب کا حق ہے اور ہم آپ کی اور مسلمانوں کی بھلائی چاہتے ہیں ۔
ہم عراق اور شام میں دہشت گردوں اور شدت پسندوں سے مقابلہ کررہے ہیں اور کوئی گروہ بھی ہماری طرح دہشت گردوں اور شدت پسندوں سے بر سرپیکار نہیں ہے ، اس کے باوجود ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں ۔
ایران اور انقلاب ایران کے سلسله میں جو کچه مغربی میڈیا سے منتشر هوتا هے اور جو کچه آپ مغربی لوگ اپنی آنکهوں سے ایران میں دیکه رهے هیں، دونوں میں بهت زیاده فرق پایا جاتا هے. ایران کی اسلام دشمن اور ایران دشمن میڈیا کے ذریعه شناخت نه کریں.
علمائے دین اور حوزہ علمیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا فکری اور ثقافتی مقابلہ کرے اور ہمیں ثابت کرنا چاہئے کہ یہ دشمنوں کے آلہ کار ہیں اور ان کے افکار ونظریات بھی اسلام کی برخلاف ہیں ۔
حال ہی میں عرب حکمرانوں کی طرف سے تعجب خیز بات جو سننے کو ملی ہے وہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے ایک نشست میں حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد گروہوں کا جزء قرار دیا ہے ، وہی حزب اللہ جو تمام عرب ممالک کے لئے بزرگ ترین افتخار ہے ۔
ایک دن وہ آئے گا کہ یہی لوگ شرمندگی کے ساتھ واپس آئیں گے اور ڈپلومیٹک روابط کو برقرار کرنے کی درخواست کریںگے ، شجاع اور بے گناہ عالم دین کو شہید کرنے پر پوری دنیا نے ان کی مذمت کی ہے ۔
شیخ نمر نے اسلحہ نہیں اٹھایا ، ان کا اسلحہ ان کی زبان اور ان کا قلم تھا ، شیخ نمر کی گردن مارنے اور ان کے لاشہ کو سولی پر چڑھانے کا جو کام وہی تھا جو داعش کے لوگ انجام دیتے ہیں ۔
حال ہی میں شیخ الازہر نے جو کہ اتحاد اور تقریب مذاہب کی طرف مائل ہیں ، شیعوں کے خلاف بہت سخت تقریر کی ہے اور اس کی اصل وجہ بعض ٹی وی چینل بتائی ہے جو دوسرے مذاہب کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں ۔
میں حجاز اور وہابی علماء کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اس وقت اپنے افکار اور نظریات کا نتیجہ دیکھ رہے ہو ، تمہاری فکروں کا نتیجہ سروں کو کاٹنا، جرائم انجام دینا، لوگوں کو زندہ جلانا اور نیست ونابود کرنا ہے ، لہذا تم مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوجائو اور ان غلط افکار کو ترک کردو ۔