آقای قرضاوی تعصب کو چھوڑ کر حقیقت کی طرف توجہ کریں

آقای قرضاوی تعصب کو چھوڑ کر حقیقت کی طرف توجہ کریں


قرضاوی ،مصر اور لیبیا کے قیام کی حمایت کرتے ہیں لیکن جب بحرین کا مسئلہ آتا ہے تو ظلم و استبداد کی حمایت کرتے ہیں، کیا ایک عالم دین کے لئے دو طرح کی باتیں کرنا صحیح ہے؟‌

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے قم کی مسجد اعظم میں اپنے فقہ کے درس خارج میں ایک اخلاقی حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس میں آداب زندگی اور مخالفین کے ساتھ برتاو کرنے کے طریقوں کو بیان کیا گیا ہے ، کہا :  اس سلسلہ میں ہمیں ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی سیرت پر عمل کرنا چاہئے اور جو کچھ انہوں نے انجام دیا ہے ہمیں بھی وہ کام کرنا چاہئے ۔

آپ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمارے مخالفین تین طرح کے لوگ ہیں ، وضاحت کی :  پہلا گروہ ناصبیوں کا ہے جوائمہ اطہار (علیہم السلام) کے دشمن ہیں، ہم لوگ ان سے بیزار ہیں حالانکہ ان کی تعداد بہت کم ہے ۔ دوسرا گروہ وہابیوں کا ہے جو شیعوں کے دشمن ہیں اور کھل کر مخالفت کرتے ہیں ۔ تیسرا گروہ شیعہ نہیں ہے لیکن یہ اہل بیت (علیہم السلام) اور شیعوں سے محبت کرتے ہیں ، لہذا اس بات کا خیال رہے کہ ان تینوں گروہوں کے ساتھ ہمارا برتاو ایک جیسا نہیں ہے ۔

آپ نے مزید فرمایا : ہم تیسرے گروہ کے ساتھ دوستانہ سلوک کرتے ہیں اور اسی وجہ سے کبھی کبھی وہ ہم سے متاثر ہوتے ہیں اور ہم نے اس مسئلہ کا ایران کے اسلامی انقلاب کے زمانہ میں تجربہ کیا ہے جب ہمیں شہر مہاباد میں جلاوطن کیا گیا تھا ۔

معظم لہ نے فرمایا : موجودہ حالات میں دوسرے گروہ کے ساتھ بھی ہم اپنے تعلقات کو اچھا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،یہاں تک کہ جب مکہ جاتے ہیں تو ان کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں ، حضرت امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) بھی اس مسئلہ پر بہت زیادہ تاکید کرتے تھے ۔

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: اس وقت کے حالات ایسے ہیں کہ اگر امت اسلامی کے درمیان کوئی جھگڑا یا اختلاف ہوتا ہے تو اس کا فائدہ دشمن کو پہنچے گا اور ان حالات میں ہمیں اس بات کی طرف توجہ رکھنا چاہئے اور کسی کو اس بات کا موقع نہیں دینا چاہئے ۔

آپ نے مزید فرمایا :  اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم اپنے مذہب کے اصولوں سے نظر انداز کردیں، ہم اپنے اصولوں پر قائم ہیں ۔

معظم لہ نے اپنے بیان میں بحرینی عوام کے قیام کے سلسلہ میں قرضاوی کے بیان کی تنقید کرتے ہوئے فرمایا : اس شخص نے حال میں بحرینی شیعوں اور بحرینی عوام کے قیام کے سلسلہ میں جو بیان دیا ہے یہ ایک عالم دین کی شان کے خلاف ہے ،قرضاوی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان لوگوں سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے ان کو قتل کردو ۔

آپ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا : کیا ایک عالم دین اس طرح کی باتیں کرسکتا ہے؟ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم مسلمانوں کے درمیان تبعیض کے قائل ہیں ، قرضاوی ،مصر کے قیام کی حمایت کرتے ہیں،لیبیا کے قیام کی حمایت کرتے ہیں لیکن جب بحرین کا مسئلہ آتا ہے تو ڈیکٹیٹر کی حمایت کرتے ہیں، کیا ایک عالم دین کے لئے دو طرح کی باتیں کرنا صحیح ہے؟ ایک جگہ لوگوں کے قیام کی حمایت اور دوسری جگہ ظلم اور بربریت کی حمایت ۔

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے بحرین کی عوام کے قیام کو شیعوں سے مخصوص نہیں جانا اور یہ بیان کرتے ہوئے کہ ان سب نے قیام کیا ہے ، کہا :  یہی نہیں بلکہ علماء اہل سنت نے بحرین کے قیام کے لئے اپنے بیان دئیے ہیں اس کے بعد ایک عالم دین آئے اور اس طرح کی باتیں کرے ۔

آپ نے مزید فرمایا :  عالم دین کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ تعصب کو چھوڑ دے اور دو طرح کی باتیں کرنے سے پرہیز کرے جس سے امت کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ہوتا ہو اور اس کا فائدہ اسلام کے دشمنوں کو ہوتا ہو ۔

معظم لہ نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے وضاحت فرمائی :  اسلامی ممالک جیسے لبنان میں شیعہ، سنی اور عیسائی ایک ساتھ اپنے ملک کی ترقی کیلے کام کررہے ہیں ، مصر میں بھی ایسا ہی ہے ، یہ صرف ایران سے ڈر رہے ہیں۔

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اسلامی بیداری میں جمہوری اسلامی ایران کے بہترین کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :  میں چاہتا ہوں کہ آقای قرضاوی، شیخ الازہر مصر، مفتی بزرگ سعودی او رہم چاروں ایک جگہ بیٹھتے ہیں اور حساب کرتے ہیں کہ اگر ایران کا اسلامی انقلاب نہ ہوتا اور ہم امریکا کو منہ توڑ جواب نہ دیتے تو اس علاقہ کی حالت ایسی ہوتی، کیا مصر میںایسا ہوسکتا تھااور کیا لبنا ن وغیرہ ایسے ہوتے؟

آپ نے تاکید فرمائی : اگر ایران اور لبنان کے شیعہ ، اسرائیل پر مہلک ضرب نہ لگاتے ، اگر ایران نہ ہوتا تو اس علاقہ کا حالت ایک دوسری ہوتی ، امریکہ اور دوسری استکباری ممالک اپنے برے اہداف کو اس علاقہ میں جاری کرتے ۔

معظم لہ نے علاقہ کے قیام کو مصادرہ کرنے کی استکبار کی کوشش بتایا ہے اور فرمایا:  اس انقلاب کے کامیاب ہونے کے بعد اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خارجی اور استکبار جہانی اس کو مصادرہ نہ کرلے ، اگر مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہوگیا تو وہ لوگ کامیاب ہوجائیں گے ۔

آپ نے مزید فرمایا :  جمہوری اسلامی ایران اس قدر قوی ہے کہ وہ علاقہ کے انقلاب کو مصادرہ کرنے والوں کے سامنے ڈٹ جائے اور اپنے حصہ کے مطابق اس کی حفاظت کرے اور موجودہ حالات میں ایک قدرتمند اور طاقتور ایران کی ضرورت ہے ۔

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اپنے بیان میں فرمایا : میں پھر تاکید کرتا ہوں کہ اس انقلاب میں شیعہ اور اہل سنت کی کوئی بات نہیں ہے اصل مسئلہ اسلام ہے ۔

آپ نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا :  مجھے امید ہے کہ خداوند عالم ہم سب کو تعصب سے خالی فکر ، صحیح تشخیص اور اچھے نظریات عطاء فرمائے ۔

مطلوبه الفاظ :
captcha