امام صادق(ع) کی علمی تحریک اور یونیورسٹی کی علمی تحریک کے متعلق معظم لہ کی تقریر

امام صادق(ع) کی علمی تحریک اور یونیورسٹی کی علمی تحریک کے متعلق معظم لہ کی تقریر


اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے لئے تمام یونیورسٹی والے چاہے وہ اساتید ہوں یا طالب علم ، سب محترم ہیں ، لیکن ہم ایسی یونیورسٹی چاہتے ہیں جس میں چار شرطیں پائی جاتی ہوں ، پہلی شرط یہ ہے کہ یونیورستی کامل طور پر مستقل ہو، یعنی اس پارٹی اور اس پارٹی کا سیاسی وسیلہ اور حربہ نہ ہو ۔‌

امام صادق علیہ السلام کی شب شہادت میں نماز مغرب و عشاء کے بعد صحن جامع رضوی میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اپنی تقریر کے دوران امام صادق علیہ السلام کی علمی تحریک اور اس کے آثار و برکات کے متعلق بہت ہی مفصل بحث و گفتگو کی ۔
معظم لہ نے اس کے بعد فرمایا : میں یہاں پر ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنی یونیورسٹیوں کی علمی تحریک کے متعلق بھی چند جملے عرض کروں تاکہ امام صادق علیہ السلام کے پروگراموں سے الہام لیتے ہوئے صحیح راستہ کو تلاش کرسکیں ۔
انہوں نے مزید فرمایا : اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے لئے تمام یونیورسٹی والے چاہے وہ اساتید ہوں یا طالب علم ، سب محترم ہیں ، لیکن ہم ایسی یونیورسٹی چاہتے ہیں جس میں چار شرطیں پائی جاتی ہوں ، پہلی شرط یہ ہے کہ یونیورستی کامل طور پر مستقل ہو، یعنی اس پارٹی اور اس پارٹی کا سیاسی وسیلہ اور حربہ نہ ہو ۔اگر خدانخواستہ ہماری یونیورسٹیاں کسی ایک حزب کے سیاسی حربہ میں تبدیل ہوگئیں تو اس کا اعتبار اور اہمیت ختم ہوجائے گی ۔
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مغرب کی طرف مائل نہ ہوں یعنی مغربی تہذیب بالکل ہماری اسلامی یونیورسٹی پر حاکم نہ ہو۔ ہم وہ قوم ہیں جس کا تہذیب و تمدن گزشتہ زمانہ سے درخشاں ہے ، جس وقت ہم نے دنیا میں علمی تبدیلی ایجاد کی تھی اس وقت یوروپ اپنے قرون وسطی کو طے کررہا تھا ،بہت سے تجربی، طبیعی اور ڈاکٹری کے علوم کی بنیاد رکھنے والے علمائے اسلام تھے ، اس کے باوجود پھر ہم مغرب کی طرف کیوں مائل ہوں ؟ اگر چہ دوسروں کے علوم سے استفادہ کرنا چاہئے کیونکہ علم کا کوئی وطن نہیں ہے، لیکن دوسروں کی تہذیب وتمدن ہمارے علمی مراکز پر حاکم نہیں ہونے چاہئیں ۔
تیسری شرط یہ ہے کہ یونیورسٹی علم ایجاد کرے جیسا کہ رہبر انقلاب نے فرمایا : آپ یونیورسٹی والے دوسروں کے آثار کے ترجمہ پر قناعت نہیں کرو گے ، ترجمہ اپنی جگہ پر اچھی چیز ہے لیکن علم پیدا کرنا ایک دوسرا اہم وظیفہ ہے جس کو الحمدللہ میں اس وقت دیکھ رہا ہوں کہ ہماری یونیورسٹی والے اس طرف حرکت کررہے ہیں ۔
معظم لہ نے فرمایا : لیکن چوتھی شرط یہ ہے کہ یونیورسٹی میں چاہے وہ استاد ہوں اور چاہے شاگرد ، ایمان اور تقوی ہونا چاہئے ، اگر خدانخواستہ یونیورسٹی میں ایمان اور تقوی کی بنیاد متزلز ہوگئی تو ہم بہت سی مشکلات میں غرق ہوجائیں گے ، ایک بہت ہی سادہ مثال پیش کرتا ہوں : کیا ہم سوچتے ہیں کہ امریکہ کی اس کانگریس کے افراد پڑھے لکھے نہیں ہیں ، یہ سب بہت زیادہ پڑھے لکھے ہیں بلکہ اس ملک کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں لیکن جب غزہ کی جنگ شروع ہوتی ہے اور اسرائیل اس قدر وحشتناک جرائم انجام دیتا ہے تو یہ لوگ اسرائیل کا دفاع کرنے کیلئے کھڑے ہوجاتے ہیں ،یہاں تک کہ وہ رائے دیتے ہیں کہ اسرائیل کے ان وحشتناک جرائم پر زیادہ سے زیادہ مدد کی جائے ۔
جی ہاں ان کے پاس علم ہے لیکن جو چیز نہیں ہے وہ ایمان اورتقوی ہے ، مادی منافع ان کے لئے سب کچھ ہیں ، لیکن استاد اور شاگرد با ایمان کا سب کچھ اسلامی اخلاق اور حقوق انسان کا احترام ہوتا ہے ۔
یونیورسٹی مملکت کا دل ہے جس طرح حوزہ علمیہ بھی ملک کا دل ہے اگر دل بیمار ہوجائے تو پورا ملک بیمار ہوجائے گا ۔
ثامن الحجج علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کے روضہ کے پاس سے اس پیغام کو میں مسئولین محترم کے پاس بھیجوں گا ، ان اشاء اللہ مجھے امید ہے کہ اس پر توجہ کی جائے گی ۔
والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ۔

 

captcha