حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے اس تاکید کے ساتھ کہ تاریخی واقعات اور تاریخی مسائل کو بھلایا نہی جا سکتا ہے ، کہا : بعض اھل سنت کے علماء نے ایرانی ٹیلی ویژن کے کچھ پروگرام کو صحابه کی توهین قلمداد کیا ہے حالانکہ ان کی یہ فکر غلط ہے ۔
حضرت آیت الله ناصر مکارم شیرازی مرجع تقلید نے آج اپنے فقہ کے درس خارج میں اھل سنت کی طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ٹیلی ویژن کے کچھ پروگرام کے اعتراض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : مصر کے بعض علماء اور ملک کے جنوبی علاقہ کے اھل سنت بھائیوں نے ٹیلی ویژن کے ذریعہ بعض تاریخی پروگرام کے نشر کرنے کو صحابه کی توهین قلمداد کیا ہے ۔
مرجع تقلید نے بیان کیا : ان لوگوں کو غور کرنا چاہیئے کہ اھانت ایک الگ مسئلہ ہے اور تاریخی روایات کو بیان کرنا دوسرا مسئلہ ہے اور ان دونوں میں بنیادی فرق ہے ۔
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے وضاحت کی : کیا کسی کو شک ہے کہ تاریخ اسلامی میں ایک جنگ واقع ہوئی ہے جس کا نام جنگ جمل ہے ؟ اور کیا کسی کو شک ہے کہ طلحہ و زبیر نے اپنے امام کی بیعت توڑی تهی؟ کیا کسی کو اس پر شک ہے کہ مسلمانوں کی کثیر تعداد اس جنگ میں ماری گئی ؟ یہ سب تاریخی روایت ہے اور اس کا فیصله خود لوگوں کے هاتهوں میں ہے ۔
انہوں نے اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے وضاحت کی : کیا کسی کو شک ہے کہ اسلام میں ایک جنگ، صفین کے نام سے واقع ہوئی هے ؟ کیا کسی کو اس میں شک ہے کہ بعض صحابه نے اپنے زمانہ کے امام کی بیعت نہی کی ؟ اور ان کے ساته جنگ کی هے اور بهت زیاده لوگ قتل هوئے، آپ کہتے ہیں کہ تاریخ کو بیان نہ کیا جائے ۔
حوزہ علمیہ قم میں معظم له نے تاکید کی : کبھی بهی تاریخ سے آنکھیں بند نہی کرنا چاہیئں تحقیر ایک الگ مسئلہ ہے اور تحقیق دوسرا مسئلہ اور کبھی بھی ان دو چیزوں کو مخلوط نہ کیا جائے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے مزید فرمایا : ہمارے ان بھائیوں کو اس بات کی طرف توجہ کرنا چاہئے کہ تاریخی مسائل کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، تاریخ اسلام کی تمام کتابوں میں یہ واقعات موجود ہیں خصوصا اہل سنت کی تاریخ کی کتابوں میں بھی طلحہ و زبیر اور عبداللہ بن زبیر کے متعلق تمام واقعات موجود ہیں ۔
آپ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: اگر تاریخ کی اسی طرح سے تحقیق کی جائے جس طرح سے کتابوں میں موجود ہیں تو بہت سے حقایق سامنے آجائیں گے ۔
معظم لہ نے مزید فرمایا : اسلام کی پوری تاریخ میں بعض صحابہ ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے راستہ پر گامزن رہے اور بعض نے اس راستہ کو ترک کردیا ، اگر ہم بغیر کسی تعصب کے تاریخی واقعات کا مطالعہ کریں تو ہمارا وظیفہ واضح ہوجائے گا ، یہ مسائل واقعات کی وضاحت ہیں،ہم کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں توہین نہیں کرتے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : مسلمان شخص کی سرزنش اور ملامت کرنا بہت ہی مذموم عمل ہے اور فرمایا : اگر کوئی مومن کسی مسلمان کی ذرا سی بھی توہین کرے یا بغیر کسی دلیل کے اس کی طرف کفر و ارتداد کی نسبت دے تو وہ شخص اسلامی برادری سے خارج ہوجائے گا ۔
آپ نے مزید فرمایا : بعض سلفی وہابی ،تمام مسلمانوں کی طرف شرک و ارتداد کی نسبت دیتے ہیں ،اس حدیث کے پیش نظر ، یہ نسبت خود ان ہی کی طرف پلٹتی ہے ۔
معظم لہ نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، مسلمانوں کی تکفیر کو جائز نہیں جانتے، فرمایا: کسی کی طرف بری نسبت نہیں دینا چاہئے ، البتہ اعمال کے صحیح ہونے اور اس کے قبول ہونے کا مسئلہ ایک دوسرا موضوع ہے ۔