حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اپنے فقہ کے درس خارج میں شہر ریاض کے امام جمعہ کے ذریعہ آیة اللہ العظمی سیستانی کی توہین پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا : اس میں کوئی شک نہیں کہ معظم لہ کا شمار شیعوں کے مشہور مراجع تقلید میں ہوتا ہے اور ان کی توہین ، شیعوں کے تمام مراجع اور جمہوری اسلامی ایران کی توہین ہے۔
آپ نے مزید فرمایا: اگرہم بھی آپ لوگوں پرکفر اور دوسرے مسائل کی تہمت لگا نے لگیں تو آپ کیا کریں گے؟ ، اس وقت دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف فتہ برپا کرر ہاہے ، ایسی حالت میں کیا ہمارے لئے یہ بہتر ہے کہ ہم دشمن کو چھوڑ کر آپس میں فتنہ و فساد کو بڑھاوا دیں؟!
حضرت آیة اللہ مکارم شیرازی نے اہل سنت کی مشہور کتابوں کی روایات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں لکھا ہے کہ جو لوگ قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں ان کو کفر سے متہم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے چہ جائیکہ ایک بزرگ عالم دین کی طرف ایسی نسبت دی جائے۔ ہم نے سنا ہے کہ شیخ الازہر نے شہر ریاض کے امام جمعہ کی اس بات کی مذمت کی ہے ، یقینا الازہر کے علماء ، ان سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ وہابی علماء کے پاس علم و اطلاع بہت کم ہے ، مصر کے اس بزرگ عالم دین نے اس وہابی شیخ کی باتوں کو غلط کہا ہے۔
آپ نے مزید ان جیسے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ اس طرح کی باتیں شیعوں کی طرف منسوب کرو گے تو شیعوں کی عظمت کم ہوجائے گی؟
معظم لہ نے اپنی تقریر کے ایک حصہ میں قم کے ہزاروں طلاب اورعلماء کی رہبر انقلاب حضرت آیة اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : معظم لہ نے اس ملاقات میں حکیمانہ اور اہم باتیں بیان فرمائیں اور تاکید فرمائی کہ غرور و تکبر والے کام انجام نہیں دینے چاہئے اور سب کو قوانین پر عمل کرنا چاہئے۔
آپ نے فرمایا : اگرسماج میں بے قانونی حاکم ہوجائے تو اس سماج میں ہرج و مرج لازم آجائے گا اور فتنہ کی آگ کبھی بھی ختم نہیں ہوگی۔
معظم لہ نے تاکید فرمائی: قرآن مجید سورہ مائدہ کی آٹھویں آیت میں فرماتاہے: خبر دار کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو۔ اور یہ نہ کہو چونکہ وہ دشمن ہے اس لئے اس کے متعلق بے قانونی جائز ہے ، اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ سماج میں عدالت قائم ہو تو قانون کا احترام کریں۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے مزید فرمایا: ہر ملک میں عدالت اور قانون ہوتا ہے لہذا ان مسائل کو اس کے ذریعہ حل کرنا چاہئے۔
آپ نے حضرت علی (علیہ السلام) کی روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات کی یاددہانی کرائی: جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر نے حضرت علی اور آپ کے اصحاب پر پانی بند کردیا تھا لیکن بعد میں جب حضرت علی (علیہ السلام) کے اصحاب و مددگار دشمن کو نہرفرات سے ہٹانے پر کامیاب ہوئے تو بعض نے کہا کہ معاویہ کے لشکر پر پانی بند کردیا جائے تو حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا: نہیں ، میں اس غیر قانونی کام کو جو کہ اسلام کے قانون کے خلاف ہے انجام نہیں دوں گا اور یہ کام ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اس گفتگو کے اختتام پر فرمایا: اس صورت کے علاوہ اندرونی دشمن کو بہانہ اور بیرونی دشمن کو دھوکا دینے کا موقع مل جائے گا۔ انشاء اللہ تمام حضرات مندرجہ بالا نکات کی رعایت کریں گے جن نکات کی رہبر انقلاب آیة اللہ العظمی خامنہ ای نے بھی تاکید فرمائی ہے۔