حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے عشرہ محرم سے پہلے اپنے درس خارج فقہ کے آخری روز کچھ تبلیغی نکات کی طرف اشارہ کیا۔
آپ نے فرمایا: ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اس عاشورا کو گذشتہ سالوں سے زیادہ مفید ، پرشکوہ اور بہترین طریقہ سے منایا جائے۔
معظم لہ نے مزید فرمایا: تجربے بتاتے ہیں کہ عاشورا کے سایہ میں ہم ،اسلام اور تشیع کو زندہ رکھ سکتے ہیں ، عاشورا ، بہت زیادہ طاقت و ہمت ایجاد کرتا ہے ، اس کے ذریعہ ہم بہت سے اہم کام انجام دے سکتے ہیں۔
تبلیغ کی طرف طلاب کی توجہ بہت ضروری ہے
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے فرمایا: حوزہ علمیہ کے طلاب پر ان ایام (عشرہ محرم) میں تبلیغ کیلئے جانا ضروری ہے، کیونکہ مخالفین کی طرف سے بہت زیادہ حملے ہونا شروع ہوگئے ہیں، ہمیں خبر ملی ہے کہ بہائیت کا گمراہ فرقہ، عیسائیوں اور صوفیوں شدت کے ساتھ تبلیغ میں مشغول ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان سب میں سیاسی پہلو پایا جاتا ہے اور وہ اپنے خیال میں ایک مذہب کو دوسرے مذہب سے ٹکرانا چاہتے ہیں۔
آپ نے مزید فرمایا : ہمیں متوجہ رہنا چاہئے ، خصوصا جوانوں کے درمیان بہت زیادہ تبلیغ کرنا چاہئے، کیونکہ ان کے دل صاف ہیں اور ان کے درمیان تبلیغ بہت زیادہ موٴ ثر ثابت ہوگی ، اپنی مجالس میں جوانوں کو مخاطب قرار دینے کی کوشش کرو تاکہ وہ دشمنوں کے جال میں نہ پھنس سکیں ۔ اسی طرح عاشورا کے متعلق فقط کربلا کے حوادث و واقعات کو بیان کرنے پر اکتفاء نہ کرو ، بلکہ ”اسکی اصل وجہ“اور اس کے نتائج کو بھی بیان کرو، کیونکہ ہر تاریخی حادثہ کی بنیاد اور نتائج ہوتے ہیں۔ عاشورا میں امام کے دشمنوں کی بنیاد جاہلیت،ابوسفیان ، ابوجہل اور ان کے دوسرے ساتھیوں کی جنگیںہیں، آپ کو لوگوں کے سامنے ان تمام باتوں کو بیان کرنا چاہئے۔
عزادار، سست اور توہین آمیز حرکتوں سے پرہیز کریں
معظم لہ نے مبلغین سے خطاب کرتے ہوئے کہا : منبروں پر ایسے مسائل بیان کرو جن میں امام کی مظلومیت آپ کی عظمت کے ساتھ ہو ایسی مظلومیت نہیں جس میں آپ کی حقارت و توہین ہو۔ بہت سے کم پڑھے لکھے ، بے خبر افراد اور بہت سے ذاکرین جن کو زیادہ معلومات نہیں ہیں وہ ان مسائل کو نیچی سطح پر لے آتے ہیں اوران کو تحقیر آمیز مسائل سے ملادیتے ہیں ۔ آج کل کچھ لوگوں نے عزاداری میں انحراف پیدا کردیا ہے جس کو انہوں نے میں غیر اسلامی معاشرہ سے لیا ہے اور ان مبتذل آوازوں کے ساتھ شعر پڑھتے ہیں اور مجالس عزاداری میں جوان اس کو اجراء کرتے ہیں، اگرچہ بہت سے ذاکرین نے پرانی صحیح روش و طریقہ کو فراموش نہیں کیا ہے اور وہ بہترین اشعار اور گرم آواز کے ساتھ مجلسوں کو رونق بخشتے ہیں۔
خوشی کا مقام ہے کہ درحال حاضر عاشورا کے دن نماز کے وقت نمازجماعت قائم ہوتی ہے، آپ مبلغین کویہ تمام مسائل منبروں سے بیان کرنے چاہئیں، تاکہ اس طرح کہ پروگرام زیادہ سے زیادہ انجام دئیے جائیں۔ کوشش کرو کہ رات میں عزاداری کو اتنا طول نہ دو کہ عزادروں کی صبح کی نماز قضا ہوجائے۔
آپ نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا: عزادار ، مذہب کو ہلکا کرنے والے کاموں خصوصا قمہ زنی سے پرہیز کریں، دشمن قمہ زنی کے فوٹو کھینچ کر اس سے پوری دنیا کے سامنے مسلمانوں کو خلاف سازشیں کرتے ہیں اور اب تک اس چیز سے ہمیں بہت نقصان ہوا ہے ۔ مجالس عزاداری میں دینی شعائر کی تعظیم کو اعلی درجہ تک انجام دینا چاہئے، لیکن جن کام سے مذہب کی سبکی ہوتی ہو ان سے پرہیز کریں۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا: بعض کہتے ہیں کہ مرحوم آیة اللہ نائینی اور دوسرے بزرگ علماء ،قمہ زنی کو جائز سمجھتے تھے۔ اگر وہ بھی اس زمانہ میں ہوتے تو یقینا وہ بھی دوسری طرح فتوا دیتے، اس زمانہ کے حالات اور آج کے زمانہ میں بہت زیادہ فرق ہے ، ہم ایسے ماحول میں زندگی بسر کررہے ہیں جس کے برے آثار اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
مجالس عزاداری میں حزب و گروہ کے مباحث کو بیان کرنے سے پرہیز کریں
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے مزید فرمایا: سب کو اتحاد کی دعوت دو ، ایسا نہ ہو کہ مجالس امام حسین (علیہ السلام) سیاسی پارٹیوں کا وسیلہ بن جائیں، مجالس امام حسین(علیہ السلام) اتصال و اتحاد کا ایک حلقہ ہے،تمام دلوں کو ایک دوسرے سے متحد ہونا چاہئے۔
منبروں سے اخلاق و حدیث کو بیان کرنے کی ضرورت
معظم لہ نے وضاحت فرمائی: تقریر کرتے ہوئے قرآن کی آیات، معصومین کی راوایات اور معتبر تواریخ پرتکیہ کرنا ضروری ہے اور اگر سب کو حفظ نہیں کرسکتے تو ان کوایک کاغذ پر لکھ کر لے جاؤ کہ اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے ۔ منبروں کا اہل بیت کی احادیث ،قرآنی آیات اور سبق آموز نکات سے خالی ہونا ایک نقص ہے۔
منظم و مرتب خطابت
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے بیان کیا: اگرآپ کی خطابت، منظم اور آج کی ادبیات کے مطابق ہو تو وہ زیادہ موثر ثابت ہوگی، اور لوگ اس کا زیادہ استقبال کریں گے،کیونکہ منظم خطابت ، غیر منظم تقریروں سے جدا ہے جیسا کہ منظم درس دینا زیادہ موثر ہے ، منظم تقریروں کا بھی اپنا اثر ہوتا ہے، کیونکہ عالم خلقت میں نظم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور ہمیں عالم کے ساتھ ساتھ قدم بڑھانا چاہئے۔
اور آخری بات یہ ہے کہ مجالس حسینی ایک عظیم یونیورسٹی ہے سب کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔خدا وند عالم سب کو توفیق عنایت فرمائے۔
۲۲ ․ ۹ ․ ۱۳۸۸