حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے قم کی مسجد اعظم میں اپنے فقہ کے درس خارج کے دوران اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ شدت پسندی ، تکفیریت اور خونریزی کا مرکز سعودی عرب ہے اور وہاں پر داعش کو وہابیت اور محمد بن عبدالوہاب کی تعلیمات دی جاتی ہیںاور اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے ، فرمایا : سعودی عرب نے دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک گروہ بنایا ہے ،اب یہ خود اپنے آپ سے مقابلہ کر رہے ہیں ۔
انہوں نے دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں کے مقابلہ میں امریکہ اور مغربی دنیا کے منافقانہ منصوبوں پر تنقید کی اور کہا : امریکی ایسے لوگوں کا دفاع کرتے ہیں ، داعش کو مضبوط بناتے ہیں ، دوسرے لوگ ان کا غصبی تیل خریدتے ہیں اور ان کو اسلحہ دیتے ہیں اور پھر ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں اور یہ بہت ہی عجیب و غریب بات ہے ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہم دہشت گردی سے مقابلہ میں پیش پیش ہیں ، فرمایا : ہم عراق اور شام میں دہشت گردوں اور شدت پسندوں سے مقابلہ کررہے ہیں اور کوئی گروہ بھی ہماری طرح دہشت گردوں اور شدت پسندوں سے بر سرپیکار نہیں ہے ، اس کے باوجود ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں ۔
معظم لہ نے فرمایا : اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ جو لوگ دہشت گردی اور تکفیر کو اپنے گھر میں پروان چڑھاتے ہیں وہ دہشت گردی کے مخالف ہیں اور ہم جو کہ دہشت گردی کے حقیقی مخالف ہیں اور ان سے جنگ کر رہے ہیں ، ہم پر الزامات لگائے جارہے ہیں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے مزید فرمایا : امریکی اور سعودی حکمراں دنیا کے سامنے اس قدر جھوٹ نہ بولیں ،اب دنیا متوجہ ہوچکی ہے کہ تکفیر اور قتل وغارت کا مرکز کہاں ہے ۔
معظم لہ نے فرمایا : انہوں نے مکہ اور مدینہ میں اپنے مخالف علماء کا کس قدر خون بہایا ہے ، اب جو یوروپ میں جاتے ہیں اور جرائم انجام دیتے ہیں وہ سب سعودی عرب کے علمی مراکز سے تعلیم یافتہ ہیں ، اب یہ دہشت گردی سے مقابلہ کا دم بھرتے ہیں اور گروہ پر گروہ بناتے جاتے ہیں ۔
معظم لہ نے تاکید کی : ان کے جرائم کی اسناد لوگوں کے سامنے پیش کردینا چاہئے تاکہ سب کے سامنے حقایق واضح ہوجائیں ، اگر دہشت گردی کا قلعہ قمع کرنا چاہتے ہیں تو صحیح طور پر تمام مسائل پر بات چیت کرنا چاہئے ، حال ہی میں مغربی میڈیا نے اس موضوع کو بیان کیا ہے کہ دہشت گردی کا مرکز سعودی عرب ہے ۔
انہوں نے فرمایا : ابھی حال ہی میں ان کے مسئولین نے کہا ہے کہ ہمیں وہابیت سے کوئی سروکار نہیں ہے ، یہ مسئلہ اس بات سے زیادہ واضح ہے کہ اس کے اوپر پردہ ڈالا جائے ،ہمیں امید ہے کہ منطقی طور پر غور وفکر کیا جائے اور ان کے مرکز سے مقابلہ کیا جائے ۔