حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اپنے فقہ کے درس خارج میں جو کہ مسجد اعظم قم میں منعقد ہوتا ہے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور امام صادق علیہ السلام کی ولادت اور ہفتہ وحدت کی تبریک پیش کرتے ہوئے فرمایا : آج ہم مسلمانوں کو دوسرے زمانوں سے زیادہ اتحاد اور وحدت کی ضرورت ہے کیونکہ دشمن ہماری مخالفت میں متحد ہوگئے ہیں اور وہ ہمارے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
انہوں نے وحدت کی تعریف میں فرمایا : وحدت کے معنی یہ ہیں کہ ہم مشترکات پر اپنا تمرکز قائم کریں اور ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین نہ کریں اور اس بات کو ہم سب اپنے اوپر لازم و ضروری فرض کرلیں ۔
معظم لہ نے وضاحت فرمائی : آج ہمیں چاہئے کہ ہم اسلام، قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور کعبہ پر متحد ہوجائیں جو کہ ہم سب میں مشترک ہے اور اس کے مقابلہ میں ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین نہ کریں کیونکہ یہ اہانت ، پٹرول کی طرح ہے جس کو آگ پر ڈالنے کے بعد داخلی جنگ کو بھڑکایا جاتا ہے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے شدت پسند وہابیوں اور سلفیوں کے طور طریقہ کی تصریح کی : ہفتہ وحدت ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور امام صادق علیہ السلام کی ولادت پر جشن منانے کا ہفتہ ہے لہذا ہمیں اختلافات کوچھوڑ کر مشترکات پر جمع ہوجانا چاہئے ۔
حضرت آیة اللہ مکارم شیرازی نے نے سعودی عرب کے مفتی کے فتوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ولادت پر جشن منانے کو حرام قرار دیا ہے ، فرمایا : یہ لوگ ان مجالس و محافل کو قائم کرنا بدعت سمجھتے ہیں جبکہ بدعت کے معنی بہت واضح ہیں جس کی طرف یہ لوگ توجہ نہیں کرتے ۔ بدعت کی حقیقت یہ ہے جو چیز دین کا جزء نہ ہو ہم اس کو دین کا جزء قرار دیدیں ،مثال کے طور پر ہم یہ کہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ولادت کا جشن ، قرآن کریم یا سنت میں داخل ہوگیا ہے ،یہ حرام ہے ،لیکن اگر ایک عرفی امر کے اورپیغمبر اکرم (ص) کے متعلق عقلائی احترام کے عنوان سے انجام دیں تو کبھی بھی بدعت کا مفہوم اس میں نہیں پایا جائے گا ۔ لوگ اپنے بچوں کی پیدائش پر جشن (Birth Day) مناتے ہیں اور تمام دنیا اپنے بزرگوں کی ولادت کا جشن مناتی ہے اورکوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ جشن منانا ، مذہب یا کتاب وسنت کا جزء ہے ۔
انہوں نے مزید فرمایا : اگر مذہب کی فضا میں ہر چیز بدعت ہے چاہے وہ عرفی ہو تو مسجد الحرام اور مسجد النبی کی عمارتیں اور ان کے منارے ،پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں نہیں تھے لہذا ہم ان کو بدعت کا جزء سمجھیں ،حفظ قرآن کی مجلسیں، ترتیل او رغیر ترتیل میں قرآن کریم کی تلاوت کو جو کہ رسول اللہ (ص) کے زمانہ میں اس طرح نہیں تھیں ، حرام سمجھیں ۔
انہوں نے فرمایا : اختلافات اور تفرقہ کا اصلی سبب یہی افراطی افکار و نظریات ہیں جنہیں جڑ سے ختم کردینے کی ضرورت ہے ۔
معظم لہ نے مصر میں سلفیوں کی کارکردگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس میں انہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ولادت کے موقع پر جشن منانے کو منع کیا ہے ، فرمایا : فرض کرلیں کہ اگر تمہاری نظر میں یہ محافل و مجالس بدعت ہیں تو تم جشن نہ منائو ، لیکن تمہیں حق نہیں ہے کہ اپنے عقیدہ کو دوسروں پر یہاں تک کہ الازہر یونیورسٹی کے بزرگ علماء پر تحمیل کرو ، کس نے تمہیں اس بات کی اجازت دی ہے ؟ یہ خود بدترین بدعت ہے ۔
انہوں نے بیان فرمایا : فقہ ، اصول اور اعتقادات جیسے علوم سے بے خبر ہونا ایک ایسی مشکل ہے جو آج کے شدت پسند سلفیوں میں پائی جاتی ہے ۔
معظم لہ نے اپنے خطاب کے اختتام پر شدت پسند وہابیوں اور سلفیوں کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا : جس نے کہا ہے کہ تمہارا علم سب سے زیادہ بلند و بالا ہے اور دوسرے لوگ تمہاری پیروی کریں ، کتنا اچھا ہوتا جو عقل سے غور وفکر کرتے اور تعصبات کو چھوڑ دیتے اور اپنی غلطیوں پر اصرار نہ کرتے ، لہذا ان سب باتوں کو چھوڑ تے ہوئے مسلمانوں کے اتحاد میں مدد کرو ۔