آلات (دوربین ٹیلسکوپ و غیرہ) کے ذریعہ دیکھے گئے چاند کے معتبر نہ ہونے کے سلسلے میں آیة االلہ العظمی مکارم شیرازی کی فقھی دلیل

آلات (دوربین ٹیلسکوپ و غیرہ) کے ذریعہ دیکھے گئے چاند کے معتبر نہ ہونے کے سلسلے میں آیة االلہ العظمی مکارم شیرازی کی فقھی دلیل


لوگ کہتے ہیں کہ رہبر معظم انقلاب کے حکم کے با وجود، بعض مراجع کرام نے اس دن عید کا اعلان نہیں کیا آخر اس اختلاف کی کیا وجہ ہے؟۔‌

آج آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اپنے درس خارج کے آخر میں فرمایا: چون کہ عید فطر کے مسئلہ کے متعلق میرے پاس خط لکھاگیاہے ، لہذا اس سلسلے میں فقھی دلیل بیان کرنا ضروری ہوگیا ہے۔

آپ نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: اس مسئلہ کا جواب خود رہبر معظم انقلاب نے دے دیا تھا، کہ اس اختلاف کا سبب مراجع کرام کا فتواہے ، کیونکہ بعض مراجع کرام کے نزدیک آلات کے ذریعہ دیکھا گیا چاند کفایت کرتا ہے جبکہ بعض دیگر مراجع کرام اس طریقے سے دیکھے گئے چاند کو کافی نہیں سمجھتے ۔

معظم لہ نے وضاحت فرمائی: رہبر معظم کے فتوے کی سنداور دلیل ، آلات کے ذریعہ چاند دیکھنا تھا اگر کوئی فقیہ اس مستنداور دلیل کو قبول نہیں کرتاہے اور اس بات کا قائل ہے کہ آلات کے ذریعہ چاند دیکھنا معتبر نہیں ہے، چونکہ رہبر معظم کا حکم ایسی دلیل پر مستند ہے جو دوسرے فقیہ کے لئے حجت نہیں ہے لہذا وہ حکم اس فقیہ کے لئے حجت نہیں ہوگا۔

آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے مزید فرمایا: کہ بہت سے لوگ ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ تو زمانہ حاضر کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں ، بہترتھاکہ آپ آلات کے ذریعہ دیکھے گئے چاند کو کافی سمجھتے۔

آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: اگر آپ جدید آلات کو رویت ہلال (چاند دیکھنے کے) کے سلسلے میں کافی جانتے ہیں تو سب جگہ اس کو کافی جانیں۔ یعنی ان تمام مسائل میں جہاں رویت (دیکھنا) ضروری ہے ، جدید آلا ت کا استمال جیسے دوربین ،ٹیلسکوپ ، مائیکروسکوپ و غیرہ کافی ہونا چاہیے۔ اور حجت بھی  آپ فقط رویت ہلال کے سلسلے میں اس مسئلے کو منحصرنہ کریں

اس سلسلے میں معظم لہ نے سات فقھی موضوعات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: سب سے پہلا مسئلہ حد ترخص کاہے ، اگر آپ نے دس فرسخ کے فاصلے سے دوربین کے ذریعہ شہر کی دیواریں دیکھ لیں یا جدید آلات کے ذریعہ شہر کی اذان کی آواز سن لی تو کیا آپ قائل ہو سکتے ہیں کہ حد ترخص دس فرسخ ہے۔ یا اس سلسلے میں معمولی آنکھ اور کان سے سننا اور مشاہدہ کرنا ضروری ہے۔

آپ نے تاکید فرمائی: ہماری پوری بحث اس سلسلے میں ہے کہ رویت ہلال کے اطلاقات (دلیلیں) یاتو عام ہیں یعنی چاہے آلات کے ذریعہ چاند دیکھا جائے یا بغیر آلات کے دونوں کو شامل ہیں۔ یا رویت ہلال کے اطلاقات عام نہیں ہیں بلکہ معمولی رویت کی طرف منصرف ہیں، ہماری نظرمیں یہ اطلاقات منصرف ہیں۔

دوسرا مسئلہ:  بسا اوقات دودھ کے اندر خون کے بہت زیادہ باریک ذر ات پائے جاتے ہیں جنکو مائیکروسکوپ سے تو دیکھا جاسکتاہے لیکن معمولی آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ کیا یہاں پر نجاست اور حرمت کا حکم لگا یا جائے گا یا طہارت کا؟

نیز آپ نے فرمایا: تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ طہارت کے لے عین نجاست کازائل ہوجانا کافی ہے، اگر خون اور عین نجاست زائل ہوجائے لیکن اس کارنگ باقی رہے، فقھاء کہتے ہیں کہ رنگ کا باقی رہ جانا طہارت کو ضرر نہیں پہنچاتا، حالانکہ اگر اس رنگ کو مائیکروسکوپ سے دیکھا جائے تو خون کے بہت زیادہ چھوٹے اور چپکے ہوئے ذرات دکھائی دیں گے۔ کیا اس صورت میں نجاست کا حکم لگا یا جائگا؟

چوتھا مسئلہ: وہ خو ن جو دانت سے نکلتا ہے اور لعاب دھن میں حل ہوجاتاہے، اس صورت میں اسکی طہارت کا حکم جاری ہوتاہے؛ لیکن اگر مائیکروسکوپ سے اس لعاب دھن کو دیکھا جائے تو اسمیں خون کے بہت زیادہ چھوٹے ذرات دیکھے جائیں گے۔ کیا اس صورت میں اسکی نجاست کا حکم جاری ہوگا۔؟

آپ نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: پانچواں مسئلہ یہ ہے بعض فقھاء کے نزدیک حرام طریقہ سے مجنب ہونے والے شخص کا پسینہ نجس ہے ، اور اس میں نماز نہیں پڑھ سکتا، حالانکہ اگر کوئی حرام طریقے سے مجنب ہوا ہو اور بظاہر اسکا پسینہ خشک ہوگیاہو، کیا وہ شخص اسی حالت میں نماز پڑھ سکتا ہے؟ جبکہ اگر مائیکروسکوپ سے دیکھا جائے تو اسکے بدن پر پسینہ کے ذرات نظر آئیں گے

آپ نے اس سلسلے میں چھٹے مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: کیا اس صورت میں کہ جب سورج گہن اور چاند گہن فقط ٹیلسکوپ سے دیکھا جائے معمولی آنکھ سے نہیں، نماز آیات کے وجوب کے قائل ہوسکتے ہیں؟

ساتواں مسئلہ: زلزلے کہ متعلق ہے، اگر ہم کسی زلزلے کو محسوس نہ کرپائیں ۔ لیکن زلزلہ بتانے والے آلات اسکی تشخیص دے دیں توکیا لوگوں پر نماز آیات واجب ہوجاتی ہے؟ یقینا نماز آیات واجب نہیں ہوگی۔ اس طرح کی دوسری اورفروعات ہیں جنکی آلات کے ذریعہ سے تشخیص کی موافقت نہیں کی جاسکتی، پھر ہم فقط رویت ہلال کے سلسلے میں ہی اسکو کیوں قبول کریں۔

آخر میں معظم لہ نے فرمایا: ان تمام چیزوں کے علاوہ پیغمبر اکرم( صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں اگر مہینہ ۳۰ دن کاہوجاتا تھا تو سب روزہ رکھتے تھے، کیونکہ معمولی آنکھ ( بغیر آلات) سے چاند کا دیکھنا ممکن نہیں تھا بالفرض اگر انکے پاس دوربین و غیرہ موجود ہوتی اور اس سے چاند کو دیکھتے تو بعض اوقات مہینے کی پہلی ہوتی اورروزہ رکھنا حرام ہوتا، لیکن اس روز سب روزہ رکھتے تھے، کیا یہ کہا جاسکتاہے وہ سب غلطی پر تھے اور معذور تھے۔ (یا ایسا نہیں کہہ سکتے) بلکہ یہ ہے کہ رویت ہلال میں معمولی آنکھ (بغیر آلات کے ) معتبر ہے۔

یقینا ان نتائج کا قبول کرنا بہت زیادہ مشکل ہے۔

مطلوبه الفاظ :
captcha