تمام انبیاء الہی نے تہذیب نفس اور اخلاق کو جو کہ انسان کی سعادت کا سبب ہے ، بیان کیا ہے ، یہاں تک کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام کا زمانہ آیا تو آپ نے اپنے کاموں کا ایک بڑا حصہ اخلاقی مباحث پر قائم کیا اور ان کی پیروی کرنے والے تمام لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کو اخلاق کا بہت بڑا استاد سمجھتے تھے(٣) ۔
حضرت عیسی علیہ السلام بہت ہی مہربان اور خلیق پیغمبر
انبیاء کی بعثت کا ایک ہدف مکارم اخلاق اور اخلاقی اقدار کو پایہ تکمیل تک پہچانا ہے (٤) ۔ کیونکہ ایک کامل انسان کی تربیت کے مسئلہ میں علمی، اخلاقی اور عملی پہلوئوں کو بہت زیادہ اہمیت بخشی گئی ہے اور یہی ان کا اصلی اور بنیادی ہدف ہے (٥)۔
لہذا حضرت عیسی علیہ السلام نے اخلاق، تہذیب اور آئین تقوی کو بہت زیادہ اہمیت اور وسعت دی ہے (٦) ۔ جیسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں : ولما جاء عیسی بالبینات قال قد جئتکم بالحکمة و لا بین لکم بعض الذی تختلفون فیہ(٧) ۔ جس وقت حضرت عیسی علیہ السلام معجزات اور آیات الہی کے ساتھ آئے اور کہا :میں تمہارے لئے حکمت لایا ہوں اور میں تمہارے درمیان اختلافات کو ختم کرنے اور ان کو واضح کرنے کے لئے آیات ہوں (٨) ۔
اس عبارت میں حضرت عیسی علیہ السلام اپنی دعوت کو ''حکمت'' سے توصیف کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ''حکمت'' کے معنی کسی چیز کی اصلاح کے لئے اس سے پرہیز کرنا ہے ، لہذا ''حکمت ''کا لفظ تمام صحیح عقائد اور انسان کے ان تمام صحیح پروگراموں اور تہذیب نفس اور اخلاق پر اطلاق ہوتا ہے جو انسان کو ہر طرح کے ایمان اور عمل میں انحراف سے روکتا ہے (٩) ۔
دوسری طرف انسان کے لئے افتخار کا سب سے بڑا مقام یہ ہے کہ وہ خدا سے قریب ہونے کے راستہ کو طے کرے اور قربت خدا صرف اور صرف اخلاق کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا خدا کا حکیم ہونا انسان کو اس بات کی طرف دعوت دیتا ہے کہ وہ علم و حکمت کی طرف آئے اور اس کے اخلاق سے آراستہ ہوجائے جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس اہم کام کو انجام دیا ہے (١٠) ۔
اور یقینا یہ حضرت عیسی علیہ السلام کا اخلاق تھا کہ لوگ آپ کی طرف اور ایک دوسرے سے اس طرح پیار و محبت کرنے لگے کہ آپ کا حسن خلق ، عطوفت ، مہربانی اور نظر انداز کرنا زبان زد عام و خاص ہوگیا اور یہ سب ہمارے لئے درس اخلاق ہے (١١) ۔
انسان کی علمی اور تہذیبی زندگی میں تواضع کا بھی ایک بہت بڑا اثر ہے ، انسان متواضع اگر کسی مسئلہ کو نہیں جانتا تو وہ دوسروں سے سوال کرکے اپنے علم میں اضافہ کرتا ہے اور متکبر انسان سوال کے ذریعہ اپنی جھوٹی اور جعلی عزت کو خراب نہیں کرنا چاہتا کیونکہ بنیادی طور پر پہچان کا ایک پردہ تکبر ہے (١٢) ۔
- اخلاق در قرآن ؛ ج1 ؛ ص38.
- گذشتہ حوالہ؛ ص 39.
- گذشتہ حوالہ.
- اهداف قيام حسينى ؛ ص16.
- رهبران بزرگ ؛ ص26.
- پيام قرآن ؛ ج8 ؛ ص266.
- سورۀ زخرف؛آیۀ63.
- تفسير نمونه ؛ ج21 ؛ ص103.
- گذشتہ حوالہ.
- پيام قرآن ؛ ج4 ؛ ص150.
- گفتار معصومين(ع) ؛ ج2 ؛ ص18.
- اخلاق اسلامى در نهج البلاغه (خطبه متقين) ؛ ج1 ؛ ص138.