شروع میں عاشورا ایک شجاعت و دلاوری کی صورت میں ظاہر ہوا تھا ، پھراشک و آہ کے ساتھ ایک غم انگیز حادثہ میں تبدیل ہوگیا اور آخری صدیوں میں اس نے پھر اپنے پہلے چہرہ کو حاصل کرلیا یعنی آہ و آنسوئوں کے سیلاب کے درمیان مکتب حسینی کے عاشقوں نے اپنی شجاعت و دلیری کو آشکار کردیا اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد میں انقلاب برپا کردیا ۔
آیت الله العظمی ناصر مکارم شیرازی اور حوزهای علمیه کی جانب سے سردار رشید اسلام شهید الحاج قاسم سلیمانی و شهید ابو مهدی مهندس کی مجلس چهلم شهر مقدس قم کے حوزه علمیه امام کاظم (علیه السلام) کے رسول اعظم هال میں منعقد هوئی.
یقینا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کے زمین پر قدم رکھتے ہی اخلاقی بحثوں کا آغاز ہوگیا تھا (١) لہذا خدا وندعالم نے حضرت آدم کو پیدا کرنے اور جنت میں جگہ دینے کے بعد ان کو اخلاقی مسائل اور اس کے احکامات سکھا دئیے تھے (٢) اور حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی اولاد کو ان تمام اخلاقی احکام سے آشنا کیا ۔
حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے اپنے بھتیجے امام سجاد علیہ السلام کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : مستقبل میں تمہارے والد حسین علیہ السلام کی قبر پر ایک ایسا پرچم لہرایا جائے گا جو کبھی پُرانا نہیں ہوگا اور زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گااور کفر کے علمبردار اس کو مٹانے کی جس قدر کوشش کریں گے اسی قدر روز بروز اس کی عظمت میں اضافہ ہوگا ۔
ایک جملہ میں یہ کہنا ضروری ہے کہ تکفیر کا نظریہ ، عقل ، نص اور قرآن کریم کے برخلاف ہے اور اسلامی بزرگ علماء کے لئے ضروری ہے کہ اس تکفیر کی جڑوں کو صحیح منطق کے ذریعہ قطع کریں اور جوانوں کو ان کی طرف مجذوب ہونے سے روکیں ۔