حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے مدرسہ امیرالمومنین میں حضرت صدیقہ کبری (سلام اللہ علیہا) کی مجلس عزاداری میں تسلیت عرض کرتے ہوئے فرمایا : آج امریکہ کا صدر بہت ہی وضاحت کے ساتھ دو سیاسی اسٹراٹیجی کو بیان کرتا ہے اور دعوی کرتا ہے کہ ہمیں مشرق وسطی میں دو کام انجام دینے ہیں ، ایک مستقل عربی ناٹو جس میں امریکہ مداخلت نہیں کرے گا لیکن ان کی حمایت کرے گا اور دوسرا کام یہ ہے کہ ہم مشرق وسطی کو اسلحہ سے بھر دیں گے اور مشرق وسطی کا تمام پیسہ اسلحہ کے ذریعہ حاصل کرلیںگے ۔
معظم لہ نے مزید فرمایا : شام، یمن اور شمال عراق ان کے لئے بہترین تجربہ تھا عربی حکومتوں اور قوموں کو بہت ہی ہوشیاری سے عمل کرنا چاہئے اور ا ن کو امریکہ اور اسرائیل کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئے ۔
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا : مجھے نہیں معلوم ہے کہ عرب حکمرانوں کا نظریہ کیا ہے اور وہ کیا سمجھ رہے ہیں ، ان کو کوئی فکر نہیں ہے کہ امریکہ ان کے لئے کیا منصوبہ بنارہا ہے ، بیدار ہوجائو ! تمہاری آنکھوں کے سامنے شام ویران ہوگیا اور معلوم نہیں ہے کہ تیس سال تک بھی وہ پہلے کی طرح دوبارہ آباد ہوسکے گا ۔
معظم لہ نے بیان فرمایا : شمال عراق کو دیکھ لیجئے ، اگر چہ وہاں پر سب اہل سنت ہیں لیکن امریکہ کے نوکروں نے سب کو خاک و خون میں ملا دیا اور سب کو ویران کردیا ، یعنی انہوں نے اپنے اوپر بھی رحم نہیں کیا اور اب عربی ناٹو بنا رہے ہیں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے مزید کہا : عالم عرب کے کانوں تک یہ پیغام پہنچا دینا چاہئے تاکہ ان کے حکمران بیدار ہوجائیں ۔ اسلام کے دشمن ، اسلامی تمام ممالک کو ویران کردیںگے ۔
معظم لہ نے اپنے بیان کے دوسرے حصہ میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ دو وجوہات کی بنیاد پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا نیا اسلامی ا نقلاب ، نااہلوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ، فرمایا : پہلا مسئلہ صحابہ کی عدالت اور دوسرا مسئلہ صحابہ کا اجتہاد تھا ۔ بعض لوگوں کا عقیدہ تھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے تمام اصحاب بہت ہی بلند و بالا ہیں ، وہ جو بھی کرتے ہیں بالکل صحیح کرتے ہیں ، جو بھی کہتے ہیں ،عین حقیقت کہتے ہیں کیونکہ وہ صحابی کی تعریف یہ کرتے ہیں جو بھی دس سال، ایک سال، یہاں تک کہ ایک گھنٹہ بھی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ رہا ہے وہ صحابی ہے اور صحابہ جو بھی کرتے ہیں وہ صحیح ہے ،یہ نظریہ صحیح نہیں تھا ۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ جو بھی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ ایک گھنٹہ بھی رہا ہے وہ عادل ہے اور اس میں کوئی انحراف نہیں ہے وہ جو بھی کہے اس کو قبول کرلے ، کیا یہ بات قابل قبول ہے ؟
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا : قرآن کریم کہتا ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہارے اطراف میں منافقین موجود ہیں اور تم ان کو ظاہری طور پر نہیں پہچانتے ہو ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ پیغمبر اکرم(صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم) کے اطراف میں تھے ، یہاں تک کہ منافقین جن کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے ، کیا وہ سب عادل تھے اور حقیقت کو بیان کرتے تھے؟
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے فرمایا : دوسری غلطی جس کی وجہ سے اسلام کو دوسرے راستہ کی طرف منحرف کیا گیا وہ صحابہ کے اجتہاد کا مسئلہ تھا ، ایسا اجتہاد جو ان کو ہر طرح کا جرم کرنے کی اجازت دیتا تھا ، بیعت کو توڑنے سے لے کر حضرت رسول خدا (صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم) کی بیٹی کے گھر کو جلانے تک، یعنی ہر طرح کا جرم انجام دیتے تھے ، ایسا جھوٹا اجتہاد دجس کے ذریعہ انہوں نے جنگ جمل بپا کی اور اس میں ١٧ ہزار لوگ قتل ہوئے ، یا جنگ صفین میں عہد و پیمان کو توڑکر ایک لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا ۔
معظم لہ نے فرمایا : اگر چہ صحابہ کی اہمیت ہماری نظر میں بہت اہم ہے وہ قابل احترما ہیں ،لیکن تمام وہ لوگ نہیں جن کے اوپر صحابہ کا اطلاق ہوتا ہے ۔ میں کبھی بھی ان لوگوں کو بری ال١لذمہ نہیں سمجھتا جو رسول اللہ کی حکومت کے زمانہ میں موجود تھے کیونکہ انہوں نے اس زمانہ کو درک کیا تھا اور ان کے سامنے جو انحراف وجود میں آئے انہوں نے اس پر خاموشی اختیار کی ہے ۔
انہوں نے مزید کہا : ایسا کیا ہوگیا تھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حکومت کچھ ہی عرصہ بعد زمانہ جاہلی کی حکومت میں تبدیل ہوگئی تھی؟ بنی امیہ نے اسلام اور خاندان پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ کیا کیا؟ اس سلسلہ میں مطالعہ اور تحقیق کی ضرورت ہے ۔
معظم لہ نے وضاحت فرمائی : ہمیں صدر اسلام سے سبق لینا چاہئے ، ہمیں اپنے انقلاب کی حفاظت کرنا چاہئے اور اگر ہم بیدار نہ ہو ئے اور خواب غفلت میں رہے تو جب بیدار ہوں گے تو معلوم ہوگا کہ تمام منصب اور مقام ، انقلاب کے دشمنوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئے ہیں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے تاکید کرتے ہوئے کہا : اسلامی انقلاب کو ا یجاد اور برقرار کرنا بہت قیمتی ہے لیکن اس کی حفاظت کرنا بہت ہی سخت اور دشوار کام ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر کے دوسرے حصہ میں حضرت زہرا (علیہا السلام) کے انسان ساز خطبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یہ خطبہ بہت ہی مشہور خطبہ ہے اوراس کو شیعہ اور اہل سنت علماء نے بہت سی اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ یہ کم نظیراور اہم خطبہ سات حصوں پر مشتمل ہے جن میں سے ہر ایک ہدف واضح اور روشن ہے اور ان کے متعلق الگ الگ بحث کرنا چاہئے ۔
معظم لہ نے فرمایا :
پہلا حصہ : توحید، صفات پروردگار ، اسماء حسنی اور ہدف خلقت کے متعلق بہت ہی عمیق اور مختصر تحلیل ہے ۔
دوسرا حصہ : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مقام ومرتبہ اور آپ کی ذمہ داریوں، خصوصیات اور اہداف کے متعلق ہے ۔
تیسرا حصہ : قرآن مجید کی اہمیت ، اسلام کی اہم تعلیمات ، احکام کا فلسفہ و اسرار اور اس سلسلہ میں نصیحتں ہیں ۔
چوتھا حصہ : اس حصہ میں حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنے والد گرامی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ان خدمتوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو آنحضرت نے اپنی امت کے لئے انجام دی ہیں ۔یہاں پر حضرت زہرا علیہا السلام ان کو متوجہ کرتی ہیں اور ان کو ماضی قریب کی جاہلیت کو یاد دلاتی ہیں اور اسلام کے بعد ان کی حالت کا مقایسہ کرتی ہیں اور اس تبدیلی سے درس عبرت لینے کو بیان فرماتی ہیں ۔
انہوں نے مزید فرمایا : پانچویں حصہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد واقع ہونے والے حوادث اور واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور اسلام کو نابود کرنے کے لئے منافقین کے منصوبوں کو بیان کرتی ہیں ۔
چھٹا حصہ : اس حصہ میں فد کو غصب کرنے اور اس سلسلہ میں غلط بہانہ بنانے کے متعلق بیان کرتی ہیں اور ان بہانوں کا جواب دیتی ہیں ۔
اور پھر ساتویں حصہ میں انصار اور حقیقی صحابہ کے گروہ پر حجت تمام کرتے ہوئے ان سے مدد طلب کرتی ہیں اور اپنی بات کو عذاب الہی سے ڈراتے ہوئے ختم کرتی ہیں ۔