حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے جنیوا یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشن لاء ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ اور استاد ”پروفیسر مارکو ساسولی“ سے ملاقات میں فرمایا : افسوس کی بات ہے کہ حقوق بشر ، سیاستمداروں کو فائدہ پہنچانے کا ایک وسیلہ بن کر رہ گیا ہے ۔
حال حاضر میں ایران پر انسانی حقوق سے متعلق بہت زیادہ اعتراض کئے جارہے ہیں جب کہ بہت سے عربی ممالک میں نہ الیکشن ہوتا ہے ،نہ وہاں پر ڈموکراسی ہے اور نہ ہی حقوق بشر پر پابندی کی جارہی ہے ۔ لیکن ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتا کیونکہ ان کے ذریعہ انہیں بہت زیادہ فائدہ ہورہا ہے ۔
معظم لہ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ جمہوری اسلامی ایران میں بہت دفعہ الیکشن ہوئے ہیں جو کہ حقیقی اور واقعی الیکشن تھے ، کہا : ہمارے ملک کا قانون اساسی بہت اچھی خصوصیات کے ساتھ لکھا گیا ہے اور لوگوں نے اس کیلئے بہت زیادہ ووٹ دئیے ہیں ۔
آپ اگر ایران کے قانون اساسی کو ملاحظہ کریں تودیکھیں گے کہ وہ بہت زیادہ منطقی اور انسان دوست قانون ہیں ، لیکن کیا جائے وہ لوگ ان مسائل کو پسند نہیں کرتے ، ان کی قضاوت کا معیار و ملاک ان کے اپنے فائدے ہیں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اسلامی ممالک کا سفر کرنے کیلئے اس مغربی دانشور کے اقدام کا استقبال کرتے ہوئے کہا : مجھے امید ہے کہ تمہاری طرح دوسرے مغربی دانشور نزدیک سے اسلامی شخصیتوں اور پارٹیوں سے ملاقات کریں اور ان کے عقاید کو خود انہی سے حاصل کریں ، دوسروں سے نہیں ۔
آپ نے اس بات پر توجہ دیتے ہوئے کہ دوسرے بہت سے مطالب کو برعکس ظاہر کرتے ہیں ، فرمایا : بعض مغربی دانشور جو ہمارے ملک میں آئے ، کہتے ہیں ، ہم نے ایران کے بارے میں جو سنا تھا اور جودیکھا ہے دونوں میں مقایسہ نہیں کیا جاسکتا ،گویا دو ایران پائے جاتے ہیں ، ایک مغربی میڈیا میں اور ایک خارجی حقیقت میں اور یہ بہت افسوس کی بات ہے!
معظم لہ نے اسلامی تعلیمات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا : ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا کے لوگوں کے ساتھ مسالمیت آمیز سلوک کریں اورجو گروہ ہمارے ساتھ کسی طرح کا کوئی نزاع نہیں کررہا ہے ہم بھی اس کے ساتھ کوئی لڑائی اور جھگڑا نہ کریں، اور یہ بات ہمیں قرآن کریم نے سکھائی ہے ۔
آپ نے ایام حج میں تمام مسلمانوں کے ایک جگہ جمع ہونے کے اسلام کے احکام اور ایک دوسرے کے حال و احوال سے مطلع ہونے کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا : اگر ہر گروہ فقط اپنے بارے میں سوچے تو اس طرح دنیا خراب ہوجائے گی ، لہذا سب کو ایک دوسرے کی فکر کرنا چاہئے ۔
آپ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا : ہماری دینی تعلیمات کہتی ہیں کہ اپنے اور دوسروں کے فائدوں کو ایک آنکھ سے دیکھو اوراگر اس قانون پر عمل کیا جائے تو دنیا میں چین ،سکون اور صلح برقرار ہوجائے گی ۔
معظم لہ نے اپنے بیان کے ایک حصہ میں جنگ ایجاد کرنے اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی سیاست مداروں کی کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تصریح کی : شیعہ اپنے اہل سنت بھائیوں کے ساتھ ہزاروں برس سے عراق میں زندگی بسر کررہے تھے اور اس قتل و غارت کی کوئی خبر نہیں تھی ، لیکن آج روزانہ دونوں طرف سے بہت زیادہ لوگ قتل ہورہے ہیں ، ہمیں معلوم ہے کہ کون لوگ ان کو میدان میںلاتے ہیں تاکہ داخلی اور گروہی جنگ شروع ہوجائے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اسلامی ممالک کے تجزیہ یا ضعیف ہونے کو داخلی جنگ کا نتیجہ شمار کرتے ہوئے کہا : استکباری حکومتیں ان دونوں نتائج کو حاصل کرنا چاہتی ہیں لہذا اختلاف، تفرقہ اور اسلامی ممالک میں داخلی جنگ کو انہوں نے اپنا اصلی ہدف بنار کھا ہے ۔
آپ نے مزید فرمایا : ایک اہم مشکل یہ ہے کہ دنیا کی میڈیا ان کے اختیار میں ہے اور وہ ہماری بات دنیا کے لوگوں کے کانوں تک پہنچنے نہیں دیتے تاکہ اس کی اصلاح نہ ہوسکے ، نہ حقوق بشر کی اصلاح ہو اور نہ ڈموکراسی ایجاد ہو ۔
آپ نے یاددہانی کرائی : اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر کامل طور سے ایک چیز کی اصلاح نہ کرسکو تو جس قدر ہو سکے اسی قدر انجام دو اور ہم اس قانون پرعمل کرتے ہیں اور اس کو تمام اجتماعی مسائل میںجاری کرتے ہیں اور آروز و امید کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں لہذا ہم جب تک زندہ ہیں اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ حقوق بشر کی ترقی کیلئے کوشش کرتے رہیں ۔
اس ملاقات کے آخر میں پروفیسر مارکو ساسولی نے اس ملاقات کو بہت زیادہ مفید اور موثر شمار کیا ہے ۔
آج سیاستمداروں نے انسانی حقوق کو کھلواڑ بنارکھا ہے
حال حاضر میں ایران پر انسانی حقوق سے متعلق بہت زیادہ اعتراض کئے جارہے ہیں جب کہ بہت سے عربی ممالک میں نہ الیکشن ہوتا ہے ،نہ وہاں پر ڈموکراسی ہے اور نہ ہی حقوق بشر پر پابندی کی جارہی ہے ۔ لیکن ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتا کیونکہ ان کے ذریعہ انہیں بہت زیادہ فائدہ ہورہا ہے ۔