اسلامی ممالک میں حکامِ جور کے خلاف وسیع تحریکوں میں جو چیز خاص طور پر نظر آتی ہے وہ ان کے بعض بڑے علماء کا موقف ہے ۔
اطلاعات کے مطابق حجاز اور مصر کے بعض مفتیوں نے ان تحریکوں کو حرام قرار دیا ہے اور بعض نے تو ـ حیرت انگیز انداز سے ـ قیام کرنے والوں کو مفسدین فی الارض (روئے زمین پر فساد پھیلانے والے) قرار دیا ہے جبکہ ان سب کا قیام روئے زمین پر ظلم و فساد کے خلاف تھا۔
ان کے غلط موقف اور فتؤوں کی بنیاد وہ پرانا فتوی ہے جس کے مطابق "ہر ظالم یا غیر ظالم حکمران ـ چاہے وہ یزید یا چنگیز ہی کیوں نہ ہو ـ اولو الامر قرار دیا جاتا تھا"؛ ان حضرات کے یہ فتوے انہیں عالم اسلام سے دور کررہے ہیں اور نوجوان نسل کو ان سے متنفر کردیتے ہیں ۔
اب وہ زمانہ آن پہنچا ہے کہ اس پرانے اور غلط فتوے پر نظر ثانی کریں اور ظالم حکمرانوں کو "اولوالامر" کے زمرے سے نکال باہر کریں اور ان کے خلاف قیام کو واجب قرار دیں اور ظالم حکمرانوں اور ان کے حامیوں کو مفسدین فی الارض (زمیں پر فساد پھیلانے والوں) کے زمرے میں قرار دیں ۔
قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو امکان کی حد تک ان کے درمیان صلح کراؤ اور اگر ممکن نہ ہو تو ظالم فریق کے خلاف لڑو حتی کہ وہ خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرے ۔ (حجرات ـ آیت 9) تو کیا لیبیا، مصر اور بحرین کے حکام اس آیت میں ظالم فریق کے زمرے میں شامل نہیں ہیں؟۔
اہل سنت کی معروف کتاب "تاریخ طبری" میں ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو شخص ایسے ظالم و جابر حکمران کو دیکھے جس نے خدا کا حرام حلال قرار دیا ہے یا خدا کا عہد توڑدیا ہے یا خدا کے نبی (ص) کی سنت کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے اور بندگان خدا پر ظلم و ستم روا رکھتا ہے، اور وہ اپنے قول و عمل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اللہ تعالی اس کو روز آخرت اسی ظالم کے زمرے میں قرار دے گا۔ (تاریخ طبرى، ج 4، ص 304).
ظالم حکمرانوں کے خلاف عوامی قیام کی مذمت کرنے والے مفتی جلد از جلد اس پرانے غلط فتوے ، اپنے فتووں اور اپنے موقف پر نظر ثانی کریں اور مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوجائیں اور ان تحریکوں کی باگ ڈور سنبھالیں تا کہ اسلام دشمن قوتیں ان انقلابات کو اپنے فائدے میں ہائی جیک نہ کرسکیں کیونکہ اگر دشمنان اسلام ان تحریکوں اور انقلابات کو ہائی جیک کرلیں تو یہ ایک نئی اور بہت بڑی مصیبت ہوگی ۔