شیعوں کے گیارہویں راہنما، امام حسن عسکری (علیہ السلام) ٢٣٢ ہجری میں متولد ہویے (١) ۔ آپ کے والد دسویں امام ، امام ہادی (علیہ السلام) اور والدہ کا نام ""حدیثہ"" ہے (٢) ۔ بعض مورخین نے ان کا نام ""سوسن"" بھی ذکر کیا ہے (٣) ۔ یہ خاتون بہت ہی متقی، پرہیزگار اور نیک صفت تھیں، ان کی فضیلت میں یہی کہنا کافی ہے کہ امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد یہ خاتون شیعوں کے لیے پناہ گاہ تھیں (٤) ۔
عباسی خلیفہ کے حکم سے امام حسن عسکری (علیہ السلام) کو ""سامرا"" کے ""عسکر"" نامی محلہ میں زبردستی رکھا گیا تھا ،اسی وجہ سے آپ کو ""عسکری"" کہتے ہیں (٥) ۔
آپ کے دوسرے القاب نقی اور زکی ہیں (٦) ، آپ کی کنیت ""ابومحمد"" ہے ۔
جس وقت آپ کی عمر ٢٢ سال کی تھی تو آپ کے والد محترم کی شہادت ہوگیی تھی ، آپ کی امامت کی مدت ٦ سال اور آپ کی عمر شریف ٢٨ سال تھی ۔ ٢٦٠ ہجری میں آپ کی شہادت ہویی اور سامرا میں اپنے والد کے نزدیک اپنے ہی گھر میں دفن ہویے (٧) ۔
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کو اپنی اس مختصر سی زندگی میں تین عباسی خلفاء کا سامنا کرنا پڑا ، جو ایک سے زیادہ ظالم اور ستمگر تھے ، ان تینوں خلفاء کے نام یہ ہیں :
1 - المعتزّ بالله (252 - 255)
2 - المهتدى بالله (255 - 256)
3 - المعتمد بالله (256 - 279)
عباسی خلفاء ، علویوں کی حمایت اوربنی امیہ سے ان کا انتقام لینے کے لیے کھڑے ہویے تھے لیکن انہوں نے لوگوں سے جو وعدہ کیے تھے ان سب کو بھول گیے اور بنی امیہ کے خلفاء بلکہ ان سے بھی زیادہ انہوں نے ظلم و ستم کیے (٨) ۔
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی شہادت میں معتمد عباسی کا فتنہ
معتمدعباسی ہمیشہ معاشرہ کے درمیان امام کے معنوی نفوذ اور محبوبیت سے پریشان رہتا تھا ، جب اس نے دیکھا کہ روز بروز لوگوں کی توجہ امام کی طرف بڑھتی جارہی ہے اور آپ کو قید کرنے کا اثر برعکس ہو رہا ہے تو اس نے اپنے آبایواجداد کا پرانا حربہ استعمال کیا اور آپ کو پوشیدہ طور پر زہر دیدیا ۔
شیعوں کے نامور عالم دین ""طبرسی"" لکھتے ہیں : ہمارے بہت سے علماء نے کہا ہے : امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی زہر سے شہادت ہویی ہے ، جس طرح آپ کے والد ، جد امجد اور تمام ایمہ کو زہر سے شہید کیا تھا (١) ۔
شیعوں کے مشہور عالم ""کفعمی "" کہتے ہیں : آپ کو ""معتمد"" نے زہر دیا (٢) ۔چوتھی صدی میں شیعوں کے عالم دین"" محمد بن جریر رستم "" کا عقیدہ ہے کہ امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی زہر کی وجہ سے شہادت ہویی ہے (٣) ۔
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی شہادت پر ایک دلیل یہ ہے کہ دربار عباسی نے اس بات کی بہت زیادہ کوشش کی ہے کہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ امام کو زہر سے شہید کیا گیا ہے ۔
اہل سنت کے ایک عالم دین ابن صباغ مالکی نے ""عبیداللہ بن خاقان"" سے جو کہ عباسی دربار کا ایک خادم تھا،نقل کیا ہے کہ ابومحمد حسن بن علی عسکری (ص) کی شہادت سے عباسی خلیفہ معتمد کا برا حال ہوگیا تھا ،ہم اس کی اس حالت پر تعجب کررہے تھے اور ہمیں خیال تک بھی نہیں تھی کہ اس کی ایسی حالت ہوگی (کیونکہ وہ اس وقت کا خلیفہ تھا اور پوری طاقت و قدرت اس کے ہاتھ میں تھی) ۔ جس وقت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی طبیعت خراب ہویی تو خلیفہ نے اپنے پانچ معتمد افراد جو سب کے سب فقیہ اور اس کے نزدیکی افراد تھے، امام کے گھر بھیجے ۔ معتمد نے ان کو حکم دیا کہ ابومحمد کے گھر میں رہیں اور جو کچھ ہوتا رہے اس کی ہمیں خبر کرتے رہیں، نیز بعض افراد کو عیادت اور تیمارداری کے عنوان سے بھیجا ، اسی طرح قاضی بن بختیار کو حکم دیا کہ اپنے دس معتمدین کو منتخب کرے اور ان سب کو امام عسکری (ع) کے گھر بھیجے اور وہ صبح و شام وہاں کی خبریں دیتے رہیں ۔ دو یا تین دن بعد خلیفہ کو خبر دی گیی کہ ابومحمد کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے اور صحیح ہونے کی امید نہیں ہے ۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ شب و روز ان کا پہرہ دیں اور وہ ہمیشہ ان کے گھر کے چاروں طرف گھومتے رہے یہاں تک کہ آپ کی شہادت ہوگیی ، جس وقت آپ کی شہادت کی خبر سامرا میں پھیلی تو سب لوگ گریہ وزاری اور فریاد کررہے تھے ، بازاروں کی چھٹی اور دکانیں بند کردی گییں ۔
بنی ہاشم، لشکر کے سرادر، شہر کے قاضی، شعراء اور تمام گواہوں نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی ، اس روز سامراء میں ایک محشر بپا تھا ۔
جس وقت جنازہ آمادہ ہوگیا تو خلیفہ نے اپنے بھایی ""عیسی بن متوکل"" کو نماز جنازہ پڑھنے کے لیے بھیجا ،جس وقت جنازہ کو نماز کے لیے زمین پر رکھا گیا ، تو عیسی نے آپ کے چہرہ کو کھولا اور علویوں، عباسیوں، قاضیوں، لکھنے والوں اور گواہوں کو دکھایا اور کہا : یہ ""ابومحمد عسکری"" ہیں جو اپنی فطری موت سے مرے ہیں اور خلیفہ کے فلاں فلاں خدمت گار اس کے گواہ ہیں !! پھر آپ کا منہ ڈھک دیا اور نماز جنازہ پڑھایی اور دفن کرنے کے لیے حکم دیا (٤) ۔
اگر چہ یہ نماز جنازہ ظاہری طور پر خلیفہ کی طرف سے ہویی تاکہ یہ ظاہر کرسکے کہ امام کی موت فطری طور پر ہویی ہے ، لیکن علماء کے نزدیک مشہور ہے کہ حضرت مہدی (عج) نے خصوصی طور پر اپنے والد بزرگوار امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے جنازہ پر نماز پڑھی (٥) ۔ (٦) ۔
حوالہ جات:
١۔ كلينى، اصول كافى، تهران، مكتبه الصدوق، 1381 ه". ق، ج 1، ص 503 - شيخ مفيد، الارشاد، قم، مكتبه بصيرتى، ص 335 - ابن شهر اشوب، مناقب آل ابى طالب، قم، كتاب فروشى مصطفوى، ج 4، ص 422 - طبرسى، أَعلام الورى، الطبعه الثالثه، تهران، دارالكتب الاسلاميه، ص 367. مسعودی اور علی بن عیسی اربلی نے امام کی ولادت ٢٣١ ہجری میں ذکر کی ہے ۔
٢۔ شيخ مفيد، همان كتاب، ص 335 - طبرسى، همان كتاب، ص 366.
(3) . كلينى، همان كتاب، ص 503 - على بن عيسى أَربلى، كشف الغمّه، تبريز مكتبه بنى هاشمى، 1381 ه". ق، ص 192.
(4) . وكانت من العارفات الصالحات وكفى فى فضلها انّها كانت مفزع الشيعه بعد وفاه أبى محمد (حاج شيخ عباس قمى، الأنوار البهيه، مشهد، كتابفروشى جعفرى، ص 151).
(5) . صدوق، علل الشرايع، قم، مكتبه الطباطبائى، ج 1، باب 176، ص 230 - نيز صدوق، معانى الأخبار، تهران، مكتبه الصدوق - مؤسسه دار العلم، 1379 ه". ق، ص 65.
(6) . ابو جعفر محمد بن جرير الطبرى، دلائل الامامه، الطبعه الثالثه، قم، منشورات الرضى، 1363 ه". ش، ص 223.
(7) . شيخ مفيد، الارشاد، قم، مكتبه بصيرتى، ص 345 - شيخ عبدالله الشبراوى، الاتحاف بحبّ الأشراف، ط 2، قم، منشورات الرضى،، 1363 ه". ش، ص 178 – 179.
(8) . گرد آوری از کتاب: سیره پیشوایان، مهدی پیشوائی، ص 615.
(9) اعلام الورى، الطبعه الثالثه، دار الكتب الاسلاميه، ص 367.
(10) . حاج شيخ عباس قمى، الانوار البهيه، مشهد، كتابفروشى جعفرى، ص 162.
(11) . دلائل الامامه، نجف، منشورات المكتبه الحيدريه، 1383 ه". ق، ص 223.
12۔ الفصول المہمہ ،چاپ قدیم، صفحہ ٣٠٧ تا ٣٠٨ ۔ اس واقعہ کو مرحوم شیخ مفید نے ارشاد میں ، فتال نیشاپوری نے روضة الواعظین میں ، طبرسی نے اعلام الوری میں اور علی بن عیسی الاربلی نے احمد بن عبداللہ بن خاقان سے نقل کیا ہے ۔ اس گزارش سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ میں امام (علیہ السلام) کی کیا اہمیت تھی اور عباسی حکومت کیوں پریشان تھی اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ خلیفہ ،امام کے مسموم اور قتل ہونے سے کس حد تک وحشت زدہ تھا ،لہذا اس نے شروع ہی سے یہ کوشش کی کہ امام کی موت کو فطری اور طبیعی ظاہر کرے ۔
(13) . صدوق، كمال الدين، قم، مؤسسه النشر الاسلامى، (التابعه) لجماعه المدرسين بقم المشرفه، 1405 ه". ق، باب 43، ص 475 - مجلسى، بحار الأنوار، الطبعه الثانيه، تهران، المكتبه الاسلاميه، 1395 ه". ق، ج 50، ص 332 - 333.
(14) . گرد آوري از کتاب: سيره پيشوايان، مهدي پيشوائي، ص 658.