معظم لہ کی نظر میں انقلاب عاشورا کے اغراض و مقاصد

معظم لہ کی نظر میں انقلاب عاشورا کے اغراض و مقاصد


عشق اور صحیح پیروی کا دعوی اس وقت کیا جاسکتا ہے جب اپنے زمانہ کے مفاسد کی طرف غور وفکر کیا جائے اور جس قدر ممکن ہو اس سے مقابلہ کیا جائے / اور یقینا عزاداروں کا یہ عظیم اجتماع ، معاشرہ کے مفاسد سے مقابلہ اورقوم کی اصلاح کرنے کے لئے صحیح اور منطقی اعتبار سے فیصلہ کر لے تو کامیابی ضرور ملے گی ۔

قیام امام حسین علیہ السلام کے اہداف میں غور وفکر اور تحقیق نے ہمیں اس بات پر مجبور کردیا کہ ہم حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (دام ظلہ) کے قیمتی نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے اس مسئلہ کے اہم اغراض و مقاصد کو استخراج کریں اور چونکہ اس اہم مقصد کو حاصل کرنے کیلئے بہترین مآخذ امام علیہ السلام کے وہ اقوال ہیں جو آپ نے مدینہ سے کربلا کے سفر میں بیان فرمائے ہیں ۔ دوسرے وہ زیارتیں جو آپ سے منسوب ہیں (١) لہذا ان دونوں مآخذ سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں پر قیام عاشورا کے اہداف و مقاصد کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔
 امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی حکمت عملی کے ساتھ امت کی اصلاح
 امام حسین علیہ السلام نے اپنے وصیت نامہ میں محمد بن حنفیہ کو لکھا ہے : '' انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی '' ۔ میں نے اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے قیام کیا ہے (٢) (٣) ۔
اس بنا ء پر امام حسین علیہ السلام کا سب سے پہلا ہدف ،اصلاحات ہیں ، ''مفاسد'' کے مقابلہ میں ''اصلاح'' استعمال ہوتا ہے اور افساد کے معنی موجودہ نظام، یا کسی فرد یا خاندان، یا معاشرہ ، یا کسی ملک کے نظام کو تباہ وبرباد کرنا ہے اور اصلاح کے معنی اس نظام کو پہلی والی حالت پر پلٹانے کے ہیں (٤) ۔ ممکن ہے کہ ایک امت بھی اقتصادی، اخلاقی، اعتقادی، ثقافتی اور عاطفی مسائل کی وجہ سے فاسد ہوجائے اور اس کی اصلاح یہ ہے کہ ان میں سے ایک ایک مفاسد کو ختم کیا جائے اور گزشتہ نظام کو واپس لایا جائے (٥) ۔
یہی وجہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے ان مفاسد کی اصلاح کے قصد سے جو معاویہ اور یزید کی حکومت کے زمانہ میں معاشرہ پر تھونپ دئیے گئے تھے ،یزید کی بیعت کرنے سے انکار کردیا اور ارادہ کرلیا کہ گزشتہ نظام کو لوگوں کی فردی اور اجتماعی زندگی میں واپس پلٹائیں گے اور حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ کی سنتوں کو رائج کریں گے (٦) ۔
لہذا امام حسین علیہ السلام نے اپنے وصیت نامہ میں محمد حنفیہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ''ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر'' ۔ اس قیام سے میرا ہدف یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں (٧) ۔ امام حسین علیہ السلام سے مربوط زیارت نامہ میں بھی یہ بات نظر آتی ہے (٨) ۔


پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت کو زندہ کرنا
قیام عاشورا کے مقاصد میں سے ایک مقصد پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت کو زندہ کرنا ہے(٩) امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا :'' ادعوکم الی کتاب اللہ و سنة نبیہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فان السنة قد امیتت و ان البدعة قد احییت ، و ان استمعوا قولی و تطیعوا امری، اھداکم سبیل الرشاد''۔ تمہیں کتاب خدا اور سنت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ رسول خدا (ص) کی سنت کو نابود اور بدعتوں کو زندہ کردیا گیاہے ، اگر تم نے میری بات کو قبول کرلیا ، اور میرے کلام پر عمل کیا تو میں تمہیں سیدھے راستہ اورتقوی کی ہدایت کروں گا (١٠) ۔
اس نورانی حصہ کی تشریح میں کہنا چاہئے کیونکہ بنی امیہ نے خلافت کو غصب کرنے کے بعد دین میں بہت سی بدعتیں ایجاد کیں، اور سنت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو نابود کردیا تھا (١١)کیونکہ ان کی حکومت، سنت کو نابود اور بدعتوں کو ایجاد کئے بغیر باقی نہیں رہ سکتی تھی ۔ لہذا انہوں نے لوگوں کی اہمیت کا معیار بھی مال وثروت قرار دیدیا ،  انہوں نے عربیوں کو (چاہے ان میں اخلاقی انحطاط ہی کیوں نہ ہو) عجم (غیر عربوں) پر ترجیح دی(١٢) ۔ انہوں نے بیجا اورظالمانہ تفریق (١٣) قائم کی ۔ امام حسین (علیہ السلام) نے یزید کے خلاف قیام کیا تاکہ تفریق ختم ہوجائے اور عدالت اس کی جانشین ہوجائے(١٤) ۔


حق کی حمایت اور باطل کی نابودی
تاریخ گواہ ہے اورجیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ معاویہ نے کچھ ایسے گروہ بنائے تھے جن کا کام یہ تھا کہ وہ شام سے عراق امام علی (علیہ السلام)کی حکومت کے مرکز کی طرف جاتے تھے اور خفیہ طور پرآپ کی سرحدی علاقوں پر حملہ کرتے،اور یہاں پر رہنے والوں کے مال و اسباب کو لوٹ کر واپس چلے جاتے تاکہ عراق کے لوگوں کو امام علی (علیہ السلام) کی حکومت سے بدظن اور ناامیدکردیں، اور جو علاقے حضرت علی(علیہ السلام) کے قلمروئے حکومت میں میں ہیں ان میں امنیت باقی نہ رہے (١) ۔ بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے ،مسلمانوں کے مال کو لوٹنے اور اسلامی حکومت میں ناامنی پھیلانے سے بڑھ کرباطل اورکیا ہوسکتا ہے؟(١٥) (١٦) ۔ اسی طرح معاویہ نے امام علی علیہ السلام کی حکومت کو متزلزل کرنے کے لئے خلیفہ سوم عثمان کے قتل کو بہانہ بنایا اور آپ کے خلاف شورش بپا کی (١٧) ۔ لیکن معاویہ کے منحرف ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس نے اپنے بعد فاسق وفاجر اور انسانوں کے قاتل اور شراب خوار یزید کو اپنا جانشین بنا دیا (١٨) لہذا کہنا چاہئے کہ کیا یہ باطل کی حمایت اور حق کو نابود کرنے کا مصداق نہیں ہے ؟ اس لئے امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا تاکہ حق کی حمایت کریں اور باطل کو نیست و نابود کردیں اور آپ اس ہدف تک پہنچنے کیلئے ہر طرح کی قیمت ادا کرنے کو تیار تھے (١٩) ۔


جہالت کو ختم کرنا
امام حسین علیہ السلام کا ایک ہدف یہ تھا جو زیارت اربعین (٢٠) میں اس طرح ذکر ہوا ہے '' و بذل مھجتہ فیک لیستنقذ عبادک من الجھالة، و حیرة الضلالة''۔ آپ ( امام حسین علیہ السلام) نے اپنے خون و جگرکو تیری راہ میں نثار کیا  تاکہ تیرے بندوں کو جہالت و نادانی اور حیرت و سرگردانی سے نجات دلائیں ''۔ اس بناء پر قیام عاشورا کے مقاصد میں سے ایک مقصد جہالت و نادانی سے جنگ اور لوگوں کو ضلالت و گمراہی سے نجات دلانا تھا ۔ (٢١) ۔ لیکن  بنی امیہ کے زمانہ میں خصوصا معاویہ اور یزید کے زمانہ میں مسلمان ،دشمن شناس نہیں تھے ، وہ نہیں جانتے تھے کہ بنی امیہ ، رسول اللہ (ص) کے جانشین نہیں ہیں، اور بنی امیہ کبھی بھی اسلام کے ہمدرد اور حامی نہیں ہوسکتے، ان کی جہالت، ان کی تقصیراورکوتاہی کی وجہ سے تھی،لہذا وہ جاہل مقصر تھے(٢٢) ۔جبکہ امام حسین علیہ السلام نے مروان بن حکم سے ملاقات کے دوران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حدیث بیان کی تھی :  بیشک میں نے اپنے نانا رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : ''ابوسفیان کے خاندان پر خلافت حرام ہے اور اگرتم کسی روز معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اس کا پیٹ پھاڑ دینا( قتل کردینا) حالانکہ مدینہ والوں نے اس کو منبر رسول پر دیکھا لیکن اس کوقتل نہیں کیا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آج یزید جیسے فاسق و فاجر کے عذاب میں مبتلا ہیں'' (٢٣)(٢٤) ۔
لہذاامام حسین (علیہ السلام) نے لوگوں کی بیداری اور آگاہی کے لئے قیام کیا ، لیکن لوگ گہری نیند میں سوئے ہوئے تھے اور جہل و نادانی میں اس قدر غرق تھے کہ امام حسین (علیہ السلام) اور ان کے باوفا اصحاب کے خون کے علاوہ کوئی اسلام کی مشکلات کو اسلام سے دور نہیںکرسکتا تھا ۔


اسلامی حکومت قائم کرنا
امام حسین (علیہ السلام) کے قیام کے مہمترین مقاصد میں سے ایک مقصد اسلامی حکومت قائم کرنا تھا (٢٦) ۔ اس بناء پر جو لوگ اس بات کادعوی کرتے ہیں کہ دین ، سیاست سے جدا ہے وہ لوگ نہ ہی تو سیاست کے معنی کو سمجھ سکے ہیں او رنہ ہی دین اور اس کے قوانین کو پہچان سکے ہیں۔ لہذا جس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اورآپ کو دشمنوں کے شرسے نجات مل گئی تو آپ نے سب سے پہلے اسلامی حکومت قائم کی، تاکہ اپنے مقاصد کو پورا کرسکیں (٢٧) ۔ لہذا امام حسین علیہ السلام کے ایک نورانی کلام سے اس مطلب کو سمجھا جاسکتا ہے آپ فرماتے ہیں '' ... ولکن لنری المعالم من دینک ، و نظھر الاصلاح فی بلادک، و یامن المظلومون من عبادک ، و یعمل بفرائضک و سنتک و احکامک''۔  خدایا ! تو بہتر جانتا ہے کہ میرا انقلاب اور قیام لوگوں پر حکومت و سلطنت اور دنیا کے زرق و برق کو حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے ، بلکہ حکومت سے میرا مقصد یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات ، تیرے دین کی علامتیں اور شہروں کی اصلاح کرسکوں ، اور تیرے احکام و فرائض پر عمل کراسکوں (٢٨) ۔ امام حسین علیہ السلام کا ہدف اسلامی حکومت تشکیل دینا تھا لیکن کچھ رکاوٹوں کی وجہ سے مقدس ہدف پورا نہ ہوسکا (٢٩) ۔


امام حسین علیہ السلام اور عدالت
امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے ایک خط میں کوفیوں کو اپنا ایک مقصد،ظلم و ستم سے دور رہنا اور عدالت کو قائم کرنا بیان کیا ہے ، آپ فرماتے ہیں :
'' اما بعد فقد علمتم ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) قد قال فی حیاتہ : من رای سلطانا جائرا مستحلا لحرم اللہ ، ناکثا لعھداللہ، مخالفا لسنة رسول اللہ یعمل فی عباداللہ بالاثم والعدوان، ثم لم یغیر بقول و لابفعل، کان حقیقا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ''۔
بے شک آپ جانتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی میں فرمایا : جو بھی کسی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو( ظلم و جور کی وجہ سے)محرمات الہی کو حلال جانتا ہے ، خداوند عالم کے عہد و پیمان کو توڑتا ہے ، سنت و سیرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مخالفت کرتا ہے ، اور وہ اس ظالم حاکم کا مقابلہ نہ کرے اور اس کی باتوں کو غلط نہ کہے تو خداوند عالم ایسے انسان کو اسی ظالم حاکم کے زمرہ میں شمار کرے گا(اور دونوں کی آخرت ایک جیسی ہوگی) (٣٠) (٣١) ۔ امام حسین (علیہ السلام) نے اس خط میں جو ظاہرا کوفہ والوں سے خطاب ہے لیکن حقیقت میں اس خط کے مخاطب تمام آزاد انسان ہیں ، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پیغام کو ظلم و ستم اور بے عدالتی سے جنگ کرنا بیان کیا ہے اوراپنے قیام کے مقصد کا اعلان کرنے کے ساتھ سب کو اس جنگ میں مدد کرنے کی دعوت دی(٣٢) ۔
 لہذا معاشرہ میں عدالت کو قائم کرنے کی کوشش کریں ، خود ظلم سے پرہیز کریں اور دوسروں کو بھی عدالت کی دعوت دیں، ہر سال امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری کو وسیع پیمانہ پرمنائیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں جہاں بھی ظلم و ستم اور بے عدالتی نظر آئے اس کا مقابلہ کریں، اور مظلومین کی مدد کرنے کیلئے آگے بڑھیں، ان کو ظالمین کے چنگل سے نکال کر نجات دلائیں، کیونکہ یہ مجلسیں امام حسین (علیہ السلام) کے مقاصد کو بیان کرنے اوران پر عمل در آمد کرنے کا مقدمہ ہیں (٣٣) ۔


قیام امام حسین (ع) مسلمانوں کے امتحان کی جگہ
امام حسین (علیہ السلام) کا قیام اس زمانہ کے مسلمانوں کے لئے ایک امتحان تھا (٣٤) ۔کیونکہ بہت سے دعوی کرنے والے شیعہ حضرات جو اپنے آپ کو امام حسین (علیہ السلام) کا فدائی جانتے ہیں ،ان کو اپنا امتحان لینا چاہئے، اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے باقیماندہ اصحاب،اور مددگار، جنہوں نے بارہا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے امام حسن (علیہ السلام) اور امام حسین (علیہ السلام) کے صفات کو سنا تھا اور جو لوگ آرزو کرتے تھے کہ جنگ بدر و احد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ ہوتے اور شربت شہادت نوش کرتے اور وہ لوگ جو کف افسوس ملتے تھے کہ ائے کاش حضرت علی (علیہ السلام) کے ساتھ ''ناکثین'' ، قاسطین''، اور ''مارقین'' سے جنگ کرتے ، ان سب کا امتحان لینا ضروری تھا ،لیکن اس عظیم امتحان سے صرف ایک پاک و پاکیزہ گروہ کامیاب ہوا ، اور سونا چاندی جمع کرنے والا دوسرا گروہ جب اس امتحان میںداخل ہوا تو کامیاب نہ ہوسکا (٣٥) ۔
خوش بود گر محک تجربہ آید بہ میان
تا سیہ روی شود ہر کہ در و غش باشد


شفاعت عظمی کے مقام سے استفادہ
امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت میں بارہا خداوند عالم سے ان کے ذریعہ اپنی شفاعت کی دعا کرتے ہیں ۔زیارت عاشورا کے آخر میں جب سجدہ میں جاتے ہیں تو خداوند عالم کی حمد و تعریف کے بعدآپ کو مصائب تحمل کرنے پرخدا کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں : '' اللھم ارزقنی شفاعة الحسین یوم الورود''۔ خدایا ! روز محشرہمیں امام حسین کی شفاعت نصیب کر۔ اور اس کے بعد کہتے ہیں : '' و ثبت لی قدم صدق عندک مع الحسین و اصحاب الحسین الذین بذلوا مھجھم دون الحسین (علیہ السلام) ''۔  خدا یا میرے قدموں کو سچائی کی رو سے اپنے حسین اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ثابت قدم رکھ ، آپ کے وہ دوست جنہوں نے اپنے خون کوحسین پر نچھاور کردیا ۔ لیکن کیا شفاعت کے معنی یہ ہیں کہ میں جو گناہ چاہوں انجام دوں، اور جس واجب عمل کو چاہوں ترک کردوں، اور پھر آپ کی طرف آرزو او رتمنائوں کا ہاتھ بڑھائوں اور آپ کو خدا کی بارگاہ میں اپنا شفیع قرار دوں؟
یقینا ایسا نہیں ہے ، معصومین اور اولیاء الہی کی شفاعت، گناہ کرنے کیلئے سبز چراغ نہیں ہے بلکہ بالکل اس کے برعکس یہ گناہوں کے سامنے ایک مانع ہے (٣٦) ۔  کیونکہ میں شفاعت کا تقاضا کرتے وقت کہتا ہوں اگرمجھ سے کوئی لغزش ہوئی ہے تو اب مجھے ہوشیار رہنا چاہئے کہ آئندہ کوئی دوسرا گناہ نہ ہو تاکہ اولیائے الہی سے میرا رابطہ منقطع نہ ہونے پائے اور اس بات کی فکرکرنا چاہئے کہ معصومین علیہم السلام خداوند عالم کی بارگاہ میں میرے شفیع قرار پائیں (٣٧) ۔

حوالہ جات :
١ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ١١ ۔
٢ ۔  فتوح ابن اعثم ، جلد ٥ ،صفحہ ٣٣ ۔ بحارالانوار ، جلد ٤٤ ، صفحہ ٣٢٩ ۔
٣ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٢٢ ۔
٤ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٢٧ ۔
٥ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٢٧ ۔
٦ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٣٧ ۔
٧ ۔  بحارالانوار ، جلد ٤٤، صفحہ ٣٢٩ ۔ مقتل خوارزمی ، جلد ١ ،صفحہ ١٨٨ ۔
٨ ۔  “اشْهَدُ انَّكَ قَدْ اقَمْتَ الصَّلاةَ، وَآتَيْتَ الزَّكاةَ، وَامَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهَيْتَ عَنْ الْمُنْكَرِ”۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ (امام حسین علیہ السلام) نے نماز قائم کی ، زکات ادا کی اور امربالمعروف اور نہی عن المنکرانجام دیا ۔
٩ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٤٧۔
١٠ ۔  تاریخ طبری، جلد ٣ ، صفحہ ٢٨ ۔ بحارالانوار ،جلد ٤٤ ،صفحہ ٣٤٠ ۔ اعیان الشیعہ ، جلد ١ ، صفحہ ٥٩ ۔
١١ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٤٨۔
١٢ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٥١ ۔
 ١٣ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٥٣ ۔
١٤ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٥٥ ۔
١٥ ۔  حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے ٢٧ ویں خطبہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
١٦ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٦٥ ۔
١٧ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٦٦ ۔
١٨۔  سخنان حسین بن علی علیہ السلام ، صفحہ ١١ ۔
١٩ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٦٨۔
٢٠ ۔  زیارت اربعین صرف امام حسین علیہ السلام کے لئے وارد ہوئی ہے اور دوسرے تمام معصومین علیہم السلام کی زیارت اربعین نہیں ہے ، یہ زیارت بہت ہی مشہور ہے اور اس کے راوی مرحوم شیخ طوسی رحمة اللہ علیہ ہیں ۔ اس حدیث کی ابتداء سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو دور سے بھی پڑھا جاسکتا ہے اوراس کے ذیل سے معلوم ہوتا ہے کہ نزدیک سے بھی پڑھ سکتے ہیں اور شاید مراد یہ ہو کہ یہ زیارت نزدیک اور دور دونوں جگہ سے پڑھی جاسکتی ہے ، تہذیب الاحکام شیخ طوسی ، جلد ٦ ، صفحہ ٥٢ ، حدیث ٣٧ کے مطابق یہ زیارت ،ا مام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے ۔
٢١ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٧٣ ۔
٢٢ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٧٥ ۔
٢٣ ۔  لہوف ، صفحہ ٢٠ ۔ مثیرالاخزان ، صفحہ ١٠ ۔
٢٤ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٧٦ ۔
٢٥ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٧٩ ۔
٢٦ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٨٣ ۔
٢٧ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٨٦ ۔
٢٨ ۔  بحار الانوار ، جلد ١٠٠ ، صفحہ ٨٠ ۔
٢٩ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٨٩ ۔
٣٠ ۔  بحارالانوار ، جلد ٤٤ ، صفحہ ٣٨٢ ۔
٣١ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٩٧ ۔
٣٢ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٩٨ ۔
٣٣ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ١٠٢ ۔
٣٤ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ١١١ ۔
٣٥ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ١١٢ ۔
٣٦ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ١١٨ ۔
٣٧ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ١١٨ ۔
٣٨ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٤٤ ۔
٣٩ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٣٣ ۔
٤٠ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٨٠ ۔

منابع و مآخذ:
تنظیم و ترتیب اور تحقیق   ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی طرف سے اہل قلم کی ایک جماعت
دفتر حضرت ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی دام ظلہ www.makarem.ir
captcha