معظم لہ کی نظر میں عزاداری امام حسین علیہ السلام کا فلسفہ

معظم لہ کی نظر میں عزاداری امام حسین علیہ السلام کا فلسفہ


اصل عزاداری میں لوگوں کی بیداری، اسلامی امت کی آگاہی اور ظلم وستم سے مقابلہ کرنے کا پہلوپایا جاتا ہے اور حقیقت میں یہ ایسا مکتب ہے جس میں انسان کے برجستہ صفات کی پرورش کی جاتی ہے ، لہذا یہ کہنا ضروری ہے کہ عاشورا ایک 'حادثہ' نہیں ہے بلکہ ایک 'تاریخی واقعہ' ہے ۔‌

حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے ایام آگئے ہیں لہذا ضروری ہے کہ ہم حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے غم میں عزاداری منانے کی حقیقت کو زیادہ سے زیادہ بیان کریں ، یہی وجہ ہے کہ اس مقالہ میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ) کے قیمتی نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے اس مسئلہ کے بنیادی اصولوں کو مخاطبین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

امام حسین علیہ السلام کی مجلس عزاداری قائم کرنے پر روایات کی تاکید

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ اور عزاداری منانے کے متعلق روایات میں جس قدر تاکید اور نصیحت کی گئی ہے ، اس قدر کس بھی معصوم علیہم السلام یہاں تک کہ خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے متعلق بھی وارد نہیں ہوئی ہیں ، گویا کہ اس مسئلہ میں کوئی راز پوشیدہ ہے جس کی وجہ سے ائمہ علیہم السلام نے اس قدر تاکید اور سفارش کی ہے (١) ۔

مکتب اہل بیت علیہم السلام کی حفاظت

امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو قائم کرنے کے متعلق ائمہ معصومین علیہم السلام کی تاکیدات کو بیان کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ دوست اور دشمن کے اعتراف کے مطابق لوگوں کو بیدار کرنے کیلئے امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزاداری بہت زیادہ موثر ہیں اور یہ ایسی رسم ہے جس کو امام علیہ السلام نے خود اپنے ماننے والوں کوسکھائی ہے تاکہ اسلام کی بقاء کی ضامن ہو (٢) ۔

اسی طرح ان مجالس کو قائم کرنے کی اہمیت اور ان کو باقی رکھنے کیلئے ائمہ معصومین علیہم السلام کی تاکید اس وقت واضح ہوجاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت یہ روایات صادر ہوئی ہیں اس وقت شیعہ بہت زیادہ فشار اور پریشانی کی حالت میں زندگی بسر کررہے تھے ، اموی اور عباسی حکومت کا فشار اس قدر زیادہ تھا کہ شیعوں میں سیاسی اور اجتماعی چھوٹی سی بھی کارروائی کرنے کی طاقت نہیں تھی اور شیعوں کے منقرض ہوجانے میں کوئی کمی نہیں رہ گئی تھی لیکن امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزانے ان کو نجات دلائی اور اس کی پناہ میں انہوں نے اپنے آپ کو بہت اچھی طریقہ سے منظم کیا اور اسلامی میدان میں پوری قدرت کے ساتھ ظاہر ہوئے اور آج تک باقی ہیں (٣) ۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں ان مجالس عزا ''احیاء امر اہل بیت علیہم السلام'' کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ امام صادق علیہ السلام اس طرح کی مجالس کے سلسلہ میں فرماتے ہیں : '' ان تلک المجالس احبھا فاحیوا امرنا'' ۔ میں تمہاری اس طرح کی مجالس کو پسند کرتا ہوں ، اس طرح تم نے ہمارے مکتب کو زندہ رکھا ہے (٤) (٥) ۔

اسلامی امت کا اتحاد

یقینا عزاداری حسینی علیہ السلام کی رسومات کو منعقد کرنے کیلئے ائمہ اطہار علیہم السلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے اور اس کی وجہ لوگوں کے اندر اتحاد اور انسجام پیدا کرنا ہے اور آج آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے موقع پر مختلف قوم و قبیلہ اور مختلف مذاہب کے لوگ ہر گلی و کوچہ میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے لئے جمع ہوتے ہیں اور سب مل کر عزاداری مناتے ہیں ۔

ہر قوم اپنی بقا اور کامیابی کے لئے اتحاد اور اجتماع کی محتاج ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کے اتحاد کے لئے بہترین چیز عزاداری ہے جس میں بہت کم خرچ کے ذریعہ لاکھوں کو لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا جاسکتا ہے (٦) ۔

ظلم ستیزی میں امام حسین علیہ السلام کے اہداف کو زندہ کرنا

یہ بات بھی واضح ہے کہ عزاداری منانے کا ایک ہدف ،امام حسین علیہ السلام کی تاریخ اور ان کے ہدف کو باقی رکھنا ہے ، آپ کا ہدف ، ظلم و ذلت سے مقابلہ تھا ، لہذا عزاداری اس طرح منانا چاہئے کہ سب کو ان اہداف سے روشناس کرادیا جائے کیونکہ عزاداری ،ظلم سے جنگ اور ظالموں سے برائت و بیزاری کا نام ہے ۔

عطوفت اور بصیرت کا رابطہ

اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ گریہ کی بنیاد پر عزاداری کی رسومات قائم کرنا اس مکتب کے بانی سے عشق و محبت کی علامت ہے جنہوں نے ہمیں شجاعت،ایمان اور ظلم ستیزی کا درس دیا ہے ۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ عشق و محبت کا رابطہ پایا جائے اور ان کے مصائب میں آنکھوں سے کوئی آنسوں نہ نکلے ، لہذا گریہ ان مصائب اور مظالم کی وجہ سے ہے جو دشمنوں نے ان کے اوپر ظلم و ستم کئے ہیں اور حقیقت میں آپ کے دشمنوں سے اعلان جنگ ہے ، اس کے علاوہ کربلا کے مناظر ایسے تھے کہ جس میں ذرہ برابر بھی عطوفت پائی جاتی ہو وہ ان کوسننے کے بعد متاثر ہوجاتا ہے اور یہ وہی عطوفت اور محبت کا رابطہ ہے (٧) ۔

آخری بات

 عزاداری میں لوگوں کی بیداری،اسلامی امت کی آگاہی اور ظلم وستم سے مقابلہ کرنے کا پہلوپایا جاتا ہے اور حقیقت میں یہ ایسا مکتب ہے جس میں انسان کے برجستہ صفات کی پرورش کی جاتی ہے ، لہذا یہ کہنا ضروری ہے کہ عاشورا ایک ''حادثہ'' نہیں ہے بلکہ ایک ''تاریخی واقعہ'' ہے ۔حق اور باطل کی جنگ کا واقعہ ہے ، یہ مقابلہ اور جنگ ہر زمانہ میں چلتی رہی گی اور عاشورائے حسینی ، حق کے ماننے والوں کو باطل پر کامیاب ہونے کا درس دیتا ہے اور ''ھیھات منا الذلة'' اس جہاد کی اہمیت کو بیان کر رہا ہے اور ہم نے پوری تاریخ میںاس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے (٨) ۔

حوالہ جات:

 

١۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ،رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ ٦٦ ۔

٢۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ،رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ ٧٠ ۔

٣۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ،رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ ٧٠ ۔

٤۔  وسائل الشیعہ ، جلد ١٠ ، صفحہ ٣٩١ تا ٣٩٢ ، حدیث ٢ ۔

٥ ۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ،رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ ٧١ ۔

٦۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ،رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ ٧٢ ۔

٧ ۔  احکام عزاداری ، صفحہ ٣١ ۔

٨ ۔  احکام عزاداری ،صفحہ ٣٢ ۔

منابع و مآخذ:
تنظیم و ترتیب اور تحقیق   ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی طرف سے اہل قلم کی ایک جماعت
دفتر حضرت ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی دام ظلہ www.makarem.ir
captcha