شیخ الازهر اور اس دینی مرکز کے دیگر علماء کےنام معظم له کا خط

شیخ الازهر اور اس دینی مرکز کے دیگر علماء کےنام معظم له کا خط


میں ہمیشہ آپ کو پرامید نگاہ سےدیکھتا تھا اور دیکھتا ہوں، آج بھی آپ سے امید رکھتا ہوں کہ آپ ٹھوس طریقے سے اس انحراف کا سد باب کریں گے اور الازہر کی ساکھ کو دشمنان اسلام ، وہابیوں اور تکفیریوں کے ہاتھوں داؤ پر لگنے سے بچائیں گے اس لیے کہ ممکن ہے آپ کے اطراف میں کچھ ایسے مفتن قسم کے افراد موجود ہوں جو آپ کو مختلف وسوسوں کے ذریعے خط اعتدال سے منحرف کر دیں.‌

بسم الله الرحمن الرحیم

محترم جناب شیخ ڈاکٹر احمد الطیب

سلام علیکم؛

خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے میلاد مبارک پر آپ اور الازہر شریف کے دیگر علماء کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، حقیقت یہ ہے کہ طول تاریخ میں الازہر کی منطقی اور اتحاد پر مبنی پالیسیاں اور آپ کے گزشتہ عرصے میں اعتدال پسند نظریات، امید کی ایک ایسی کرن ہیں جس سے انتہاپسند اور پرتشدد تکفیری تنازعات اور رجحانات میں بھی امت مسلمہ کی امیدیں وابستہ ہیں۔ لیکن حالیہ تفرقہ انگیز اقدامات کہ جو الازہر کے نام سے انجام پائے ہیں جیسے؛ میڈیا میں شیعہ عقائد پر اعتراضات اور بعض مزدور اور دشمنوں سے وابستہ چینلوں کی وجہ سے جن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور هم ان سے بیزار هیں، شیعوں کی طرف غیر واقعی چیزوں کی نسبت دینا، شیعہ مذہب کے خلاف مقالے، کتاب اور داستان نویسی کے مقابلے منعقد کرنا اور مصر میں اہل بیت اطہار(ع) کے پیروکاروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا اور ان کے لیے نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا حتی مصر کی پارلیمنٹ میں ایک شیعہ نمائندے کو بھی قبول نہ کرنا اور اس طرح کے دیگر اقدامات جو الازہر کو خط اعتدال سے منحرف کر کے انتہاپسندی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ جن کا نتیجہ مسلمانوں کے درمیان مذہبی جنگ کی آگ بھڑکانا اور الازہر کا اپنی تاریخی ساکھ داؤ پر لگا دینا ہے۔

کیا شرع مقدس اور عقل سلیم کی نگاہ میں اسلامی مذاہب کے درمیان اختلافی مسائل کا راہ حل ان کے علماء کے درمیان عالمانہ گفتگو ہے یا ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے کرنا، مقابلے کروانا اور جنگی فضا قائم کرنا ہے؟

کیا ایک مذہب کے عقائد کو پہچاننے کے لیے حقائق کو اس مذہب کے پیشواؤں یا قابل اعتماد منابع سے لینا چاہیے یا دشمنوں سے وابستہ چینلوں، مفتن افراد اور قابل تنقید کتابوں میں پائی جانے والی ضعیف باتوں سے؟

کیا ایسے حالات میں جب اسلامی جمہوریہ ایران کو وجود میں آئے ہوئے ۳۵ سال ہو چکے ہیں آج تک کسی ایک مرجع تقلید نے میڈیا پر اہل سنت کے عقائد یا ان کے فقہی مسائل کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا اور آج تک کسی حوزہ علمیہ کی جانب سے اہل سنت کے خلاف مقالہ نویسی کا مقابلہ نہیں رکھا گیا، الازہر کا تفرقہ انگیز اقدامات انجام دینا، اس کے اسلامی اتحاد اور تقریب مذاہب کے تئیں کاوشوں کا نتیجہ ہے؟ ایران اور افغانستان میں شیعہ اور سنی ایک ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں حتی الیکشن اور حکومتوں کی تشکیل میں ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اور کوئی مشکل نہیں پائی جاتی۔

اگر خدانخواستہ الازہر کے اس طرح کے اقدامات اہل سنت کے بعض متعصب ٹولوں کے اندر تشدد کی آگ بھڑکا دیں اور وہ اپنے ہم وطن شیعوں کا خون بہا دیں اور پھر اس کا رد عمل بھی سامنے آئے تو الازہر کے ذمہ دار افراد، مسلمانوں کے اس ناحق خون کا جواب بارگاہ رب العزت میں کیا دیں گے؟

میں ہمیشہ آپ کو پرامید نگاہ سے دیکھتا تھا اور دیکھتا ہوں، آج بھی آپ سے امید رکھتا ہوں کہ آپ ٹھوس طریقے سے اس انحراف کا سد باب کریں گے اور الازہر کی ساکھ کو دشمنان اسلام ، وہابیوں اور تکفیریوں کے ہاتھوں داؤ پر لگنے سے بچائیں گے اس لیے کہ ممکن ہے آپ کے اطراف میں کچھ ایسے مفتن قسم کے افراد موجود ہوں جو آپ کو مختلف وسوسوں کے ذریعے خط اعتدال سے منحرف کر دیں لیکن امید ہے کہ آپ بھی شیخ محمود شلتوت اور تاریخ الازہر کے دیگر والا مقام شیوخ کی طرح خط اعتدال اور تقریب مذاہب کی راہ میں درخشاں ہوں گے۔ آپ سے صرف اسی بات کی امید ہے۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ناصر مکارم شیرازی

28، 12، 2015

captcha