حادثہ منی کی مشکلات کو دور کرنے کی ضرورت پر تاکید

حادثہ منی کی مشکلات کو دور کرنے کی ضرورت پر تاکید


مجھے امید ہے کہ اسلامی ممالک کے مفتی اور بزرگ علمائے اسلام اس سلسلہ میں موثر قدم اٹھائیں گے اور ایسا کام کریں گے کہ قیامت کے روز خدا کی بارگاہ میں سرخرو ہوجائیں ''  فَبَشِّرْ عِبادِ ، الَّذینَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَہُ أُولئِکَ الَّذینَ ہَداہُمُ اللَّہُ وَ أُولئِکَ ہُمْ أُولُوا الْأَلْباب'' ۔‌

آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا اہم خط

دنیائے اسلام کے ممتاز علماء کے نام

 

حادثہ منی کی مشکلات کو دور کرنے کی ضرورت پر تاکید

حادثہ منی کو چند ہفتے گذرنے اور اکثر علمائے اسلام کا عکس العمل ظاہر نہ کرنے کو مد نظر رکهتے ہوئے حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی نےاس سلسلہ میں خصوصی نشست منعقد کرنے اور اس کا راه حل تلاش کرنے کیلئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے .

اس خط کے ایک حصہ میں بیان ہوا ہے:

 (سیاسی مسائل اور اسلامی مختلف ممالک کے آپسی روابط کو نظر انداز کرتے ہوئے) یہ حادثہ تمام علمائے اسلام کی ذمہ داریوں کو اجاگر کرتا ہے اور سب کیلئے ضروری ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے غور و فکر کریں ۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس تلخ حادثہ کو گذرے ہوئے کئی ہفتہ گذر گئے اور علمائے اسلام کی طرف سے کوئی عکس العمل ظاهر نهیں کیا جبکہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : ''من لم یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم '' ۔

اس خط کے دوسرے حصہ میں بیان ہوا ہے: ایک مسلمان کی بھی جان محترم ہے ''ومن احیا ھا فکانما احیا الناس جمیعا '' ۔ چہ جائیکہ ہزاروں مسلمانوں کی جانیں چلی گئیں اور وہ بھی حج الہی کا بزرگ فریضہ انجام دیتے ہوئے ۔ کیا اس مشکل کو حل کرنے اور اس سے متعلق مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق غور وفکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ؟

ایک دوسرے حصہ میں بیان ہوا ہے : ایسی دنیا میں جہاں ایک انسان کے مرجانے سے اس قدر ہنگامہ ہوتا ہے ، اگر علمائے اسلام اس قدر قربانیوں کے سامنے خاموش رہیں گے تو دنیا کے لوگوں کا استنباط یہ ہوگا کہ مسلمان اپنے مذہب کے لوگوں کی جان کی قیمت نہیں سمجھتے۔

معظم له نے سعودی عرب کے بعض علماء کے نظریات کی طرف اشاره کرتے هوئے فرمایا :

اس حادثہ کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کیلئے اس کو ''قضا و قدر'' سے مربوط کرنا خود ایک مصیبت ہے جو مسئلہ ''قضا و قدر'' میں اسلامی تعلیمات پر علامت سوال لگاتا ہے ،مثال کے طور پر اگرمسلمانوں میں کوئی خطرناک بیماری پھیلنے لگے تو کیا اس کا علاج تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ؟ اور ہم اس کو ایسے ہی چھوڑ دیں اور پھر ''قضا و قدر الہی'' سے مربوط کردیں ! جبکہ قرآن مجید اور سنت میں قضا و قدر کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں ، خداوندعالم نے ہمارے اعمال کے سلسلہ میں ہمیں صحیح تدبیر اور غور وفکر کرنے پر مکلف کیا ہے اور یہی ایک تقدیر الہی ہے ۔(اس کے علاوه معظم لہ نے وعده کیا ہے کہ وه قضا و قدر اسلامی کے سلسله میں ایک جامع بحث آماده کرکے ارسال کریں گے) .

اس خط کے اختتامی حصه میں(چاروں وظایف کی شرح بیان کرنے کے بعد) بیان کیا هے :

میں اپنی شرعی اور انسانی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنی آمادگی کا اعلان کرتا ہوں تاکہ علمائے اسلام کو دعوت دی جائے اور اس مسئلہ پر غور وفکر کی جائے اور میں اس سلسلہ میں پیشنہاد کرتا ہوں کہ قم یا اسلامی ممالک میں اس متعلق (سیاسی مسائل سے دور) علمی اور فقھی کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ اس مسئلہ کا حل نکل سکے ۔

مجھے امید ہے کہ اسلامی ممالک کے مفتی اور بزرگ علمائے اسلام اس سلسلہ میں موثر قدم اٹھائیں گے اور ایسا کام کریں گے کہ قیامت کے روز خدا کی بارگاہ میں سرخرو ہوجائیں ''  فَبَشِّرْ عِبادِ ، الَّذینَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَہُ أُولئِکَ الَّذینَ ہَداہُمُ اللَّہُ وَ أُولئِکَ ہُمْ أُولُوا الْأَلْباب'' ۔

captcha