حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے قم کی مسجد اعظم میں اپنے فقہ کے درس خارج میں میانمار (برما) کے مسلمانوں کی نسل کشی اور ان پر واقع ہونے والے جرائم کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : میانمار ملک کو پہلے برمہ کہتے تھے اور اس کا شمار ایشیا کے جنوبی مشرق کے ممالک میں ہوتا ہے اور اس میں کئی لاکھ مسلمان رہتے ہیں اور بودائی مذہب والوں نے مسلمانوں کا قتل عام کر رکھا ہے ، ہم دیکھ رہے ہیں کہ روزانہ وہاں کے مظلوم مسلمانوں کو بہت ہی وحشیانہ طریقہ سے قتل کیا جارہا ہے ، میں نے سنا ہے کہ طالبان نے بھی ان کی مذمت کی ہے ۔
معظم لہ نے اس ظلم و بربریت پر پوری دنیا کے مسلمانوں کی خاموشی پر انتقاد کرتے ہوئے فرمایا : اسلامی ممالک کب تک خاموش رہیں گے ؟ کیا اسلامی کانفرنس کمیٹی کو جس میں ٦٠ اسلامی ممالک موجود ہیں ،برما کے متعلق آواز نہیں اٹھانا چاہئے؟ اور ان مظلوموں کی حمایت نہیں کرنا چاہئے؟
انہوں نے مزید فرمایا : اگر اسرائیل کے دامن پر گرد و غبار بھی لگ جائے تو اقوام متحدہ خاموش نہیں بیٹھتی پھر اس سلسلہ میں خاموش کیوں ہے ؟ ایسا لگتا ہے کہ اسلامی غیرت ختم ہوگئی ہے ، اقوام متحدہ سے کوئی توقع نہیں ہے لیکن مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری پر عمل کرنا چاہئے ۔ حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے پیشنہاد دی کہ اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ میانمار کی مشکل حل کرنے کے لئے ایک جلسہ تشکیل دیں اور فرمایا : جب وہ دیکھتے ہیں کہ اس مسئلہ پر ٦٠ ممالک کے وزراء غور وفکر کررہے ہیں اور وہ میانمار کے مسلمانوں کے لئے کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں اور ایران کو پیش قدم ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے تو ایسی صورت میں اقوام متحدہ بھی اپنی عزت کی خاطر اقدام کرے گی ، اس طرح کے مواقع پر بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ داخل ہونا چاہئے اور آواز اٹھانا چاہئے کہ ایسے وحشیانہ اور بے رحمانہ جرائم کے سامنے ڈ ٹ کر کھڑیں ہوں ۔ میانمار کے اکثر مسلمان اہل سنت ہیں اور ہم اسی طرح سے ان کا دفاع کرتے ہیں جس طرح سے اگر وہ شیعہ ہوتے اور ان کا دفاع کرتے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم ایسے مسائل میں کوئی بھی فرق نہیں رکھتے ۔
معظم لہ نے اپنی تقریر کے ایک حصہ میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ غدیر کی مظلومیت کو ختم ہونا چاہئے ، فرمایا : جشن و مسرت ، ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بہت اچھی بات ہے اور یہ سب ہونا چاہئے ، لیکن تمام شیعہ جوانوں کو غدیر کے اصل واقعہ سے آشنا کرانا چاہئے ، اس سلسلہ میں بہت سی متواتر روایات موجود ہیں اور اس کا اصل واقعہ بھی یہی واضح نص موجود ہیں ۔
انہوں نے مزید تاکید فرمائی : دوسروں کے مقدسات کی توہین کے بغیر اپنے مذہب کی حمایت کی جاسکتی ہے کیونکہ دوسروں کے مقدسات کی توہین کرنے سے آپس میں اختلاف ہوتا ہے اور اختلاف اچھی بات نہیں ہے ، لہذا ہمیں ان تمام باتوں کا خیال رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ غدیر کے پروگراموں کو آگے بڑھانا چاہئے اور اس کی تعظیم و تکریم کرنا چاہئے ۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ عید غدیر کے دن عصر کے وقت حرم حضرت معصومہ قم سے مسجد جمکران تک ایک جلوس برامد کیا جائے گا ، میں وعدہ کرتا ہوں کہ جہاں تک مجھ سے ممکن ہوگا میں اس جلوس میں شرکت کروں گا ۔