حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے قم کی مسجد اعظم میں اپنے فقہ کے درس خارج کے دوران امریکہ کی عہدشکنی اور پابندیاں ہٹنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : آج پردے ہٹ گئے ہیں اور ثابت ہوگیا ہے کہ مغربی فقط قدرت کی زبان سمجھتے ہیں ، قانون کی زبان، حقوق بین الملل کی زبان، عالمی مراکز کی زبان ایسے مسائل ہیں جن کی طرف مغربی متوجہ نہیں ہوسکتے ۔
انہوں نے فرمایا : ٧٠ سال پہلے بعض لوگوں نے مغربی تمدن کے سبزباغ کو دیکھ کر کہا تھا کہ یہ لوگ آہستہ آہستہ انبیاء کے راستہ کو حقوق بشر،مظلوموں سے دفاع اور حیوانات کے حقوق کے ذریعہ طے کر رہے ہیں ، جس وقت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ظہور کریں گے تو ان کا کردار اچھا ہوچکا ہوگا ،یہاں تک کہ ایک شخصیت نے جس کا میں نام نہیں لینا چاہتا ،'' طے شدہ راستہ'' نامی کتاب بھی لکھ دی تھی۔
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا : اب جبکہ ہم نے موجودہ حالات دیکھ لئے تو متوجہ ہوگئے کہ وہ تمام قوانین اور فرامین ان کے نامشروع منافع کے نام پر سرخ لکیر ہے کیونکہ اگر وہ ان منافع کو حاصل کریں گے تو حقوق بشر اور ڈموکراسی وغیرہ کے کوئی معنی نہیں ہوںگے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے فرمایا : حقوق بشر کی کھلے عام مخالفت کا نمونہ حال ہی میں واقع شدہ وہ واقعہ ہے جو آج کل اخباروں میں چھپ رہا ہے کہ برطانیہ نے سعودی عرب کو دوعرب ڈالر کا اسلحہ بینچا ہے اور سب جانتے ہیں کہ وہ اسلحہ کہاں خرچ ہوگا، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس ملک نے یمن میں کوئی غلط کام نہیں کی ہے اور انہوں نے بچوں کو قتل نہیں کیا ہے ، وہاں کے شہروں کونیست ونابود نہیں کیا ہے ۔
کیونکہ جب اسلحہ بیچنے کی بات آتی ہے تو سرخ لکیر سامنے آجاتی ہے اور ان کے حقوق بشر اور ڈموکراسی کے تمام پروگرام پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا : ان کی سرخ لکیر کے سامنے یہ سب قوانین اور مراکز اپنا اعتبار کھو بیٹھتے ہیں ،یہاں تک کہ اقوام متحدہ بھی سعودی عرب کے پیسہ سے اپنی بات واپس لے لیتا ہے اوراس حکومت کی پیشانی سے بچوں کے قتل کرنے کو پاک و صاف کردیتا ہے ۔
انہوں نے فرمایا : کیا ایسی دنیا میں قانون کی زبان سے بات کرنا چاہئے ؟ عہدنامہ اور پابندیاں ختم کرنے کے وعدوں کے ذریعہ بات کرنا چاہئے ؟ یہ لوگ ان باتوں کو نہیں سنتے اور کہتے ہیںہم اس کو پھاڑ دیں گے ۔
معظم لہ نے فرمایا : جب جدید حکومت تمام کاموں کو سنبھالتی ہے تو کیا اسے گزشتہ حکومت کے وعدوں کو پورانہیں کرنا چاہئے ؟ یہاں تک کہ پچھڑے ہوئے ممالک بھی اس بین المللی قانون پر پابند ہیں ، لیکن یہ ممالک فقط طاقت کی زبان بولتے ہیں ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ قوی رہنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ موجودہ دنیا میں ضعیف کو پائمال کردیا جاتا ہے ، فرمایا : آج یہ لوگ مضحکہ خیز باتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں تمدید اور تحریم میں بہت بڑا فرق ہے ، جبکہ یہ بات بہت ہی مضحک ہے ۔
اس مرجع تقلید نے فرمایا : مغرب والوں خصوصا امریکہ پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ان کے پروگرام بہت ہی خراب ہیں،ڈیکٹیٹر شپ، جھوٹ بولنا اور وعدوں کو پورا نہ کرنا ان کی عادت ہے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اپنے درس کے ایک حصہ میں رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ایک روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ''رحم اللہ عبدا کانت لاخیہ عندہ مظلمة فی عرض اومال فجائہ فاستحلہ قبل ان یوخذ ولیس ثم دینارولا درھم فان کانت لہ حسنات اخذ من حسناتہ و ان لم تکن لہ حسنات حملوا علیہ من سیاتہ '' ۔خداوندعالم اس شخص پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے جو اپنے اس بھائی سے معافی مانگتا ہے جس کی اس نے عزت یا مال پر حملہ کیا ہو اورپھر قیامت میں اس سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا جبکہ وہاں کوئی درہم و دینار بھی نہیں ہوں گے، لہذا اگر کسی شخص نے نیک کام انجام دیا ہوگا تو وہ اس سے لے لیا جائے گااور اگر نیک کام نہیں کیا ہوگا تو مظلوم کے گناہوں کو اس کے گناہوں میں ڈال دیا جائے گا ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ قیامت پر اعتقاد ،انسان کو گناہوں سے دور کردیتا ہے ، فرمایا : ایک عالم نے کہا ہے کہ آیة اللہ العظمی بروجردی نے معاد کا یقین کرلیا تھا ، انسان سمجھتا ہے کہ یہ بہت آسان کام ہے ، لیکن بہت سخت ہے اور اس صورت میںیہ ذرہ ذرہ انسان کے اعمال میں اثر کرے گا۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمارے درمیان آج بہت سے مباحث برعکس ہوچکے ہیں ، فرمایا : افسوس کہ آج تہمت لگانے کو اصل واساس قرار دیا جاتا ہے ۔
معظم لہ نے اختتام پر فرمایا : احساس مسئولیت اور معاد پر یقین ایسے مباحث ہیں جن کی خداوندعالم ہمیں توفیق عنایت فرمائے گا۔