حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے قم کی مسجد اعظم میں اپنے فقہ کے درس خارج کے دوران حوزہ علمیہ کے اصلی طریقوں کو باقی رکھنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا : حوزہ علمیہ اور پوری دنیا کے نظام تعلیم میں ایک بہت بڑا فرق ہے اور وہ سبب و ہدف الہی ہے ، انشاء اللہ ہمارا تعلیم حاصل کرنے کا ہدف الہی رہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس الہی ہدف کو پائمال نہ کرے ۔
انہوں نے مزید فرمایا : بہت افسوس کی بات ہے کہ جب سال کے شروع میں پڑھائی شروع ہوتی ہے تو ایک کلاس میں تقریبا ٧٠ طالب علم ہوتے ہیں اور سال ختم ہوتے ہوتے ان کی تعداد نصف یا اس سے بھی کم رہ جاتی ہے ، یہ بات کبھی بھی صحیح نہیں تھی اور طالب علموں کی ذمہ داری سے بھی سازگار نہیں ہے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے فرمایا : درس سے پہلے مطالعہ، دروس میں ہمیشہ شرکت کرنا، دروس کے بعد مطالعہ اور مباحثہ ایسی خصوصیات ہیں جو فقط حوزہ علمیہ کے نظام تعلیم میں نظر آتی ہیں ، حوزہ علمیہ میں کے اس امتیاز کو باقی رکھنا آپ سب کی ذمہ داری ہے ۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا : حوزہ علمیہ کے بزرگ علماء نے اسی نظام تعلیم کے ساتھ جس میں امتحان بھی نہیں ہوتا تھا ، بہت بلند و بالا مقام حاصل کیا ہے ۔ حوزہ علمیہ نے اسی نظام تعلیم سے شیخ طوسی اور شیخ انصاری جیسے علماء کی پرورش کی ہے اور یہ اس وقت تک صحیح نہیں ہوگا جب تک الہی ذمہ داری اور الہی ہدف نہیں ہوگا ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اپنی تقریر کے دوسرے حصہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ بعض ممالک کے رابطہ منقطع کرنے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ کوئی خاص بات نہیں ہے جس سے بعض لوگ پریشان ہوگئے ہیں ۔
انہوں نے فرمایا : جب بعض لوگ سنتے ہیں کہ سعودی عرب نے تعلقات ختم کرلیے ہیں اور اس کی رعیت میں رہنے والے چند ممالک نے بھی رابطہ منقطع کردیا ہے تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں اورخیال کرتے ہیں کہ آسمان ، زمین پر آگیا ہے ، یہ کوئی اہم بات نہیں ہے ، کبھی کبھی بعض تعلقات انسان کے لئے عیب سمجھے جاتے ہیں اور جب وہ ختم ہوجاتے ہیں تو وہ عیب بھی ختم ہوجاتا ہے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے فرمایا : چند ایجنٹوں کا سعودی عرب سے پیسہ لے کر غلط کام انجام دینے کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، وہ بھی ایسے ممالک جن کا دنیا میں کوئی کردار نہیں ہے اور بہت ہی کمزور اور ضعیف حکومتیں شمار ہوتی ہیں ، یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے ہماری قوم متاثر ہوگی ۔
معظم لہ نے فرمایا : ایک دن وہ آئے گا کہ یہی لوگ شرمندگی کے ساتھ واپس آئیں گے اور ڈپلومیٹک روابط کو برقرار کرنے کی درخواست کریںگے ، شجاع اور بے گناہ عالم دین کو شہید کرنے پر پوری دنیا نے ان کی مذمت کی ہے ۔انہوں نے خیال کیا کہ ایسا کام کیا جائے جس سے یہ اثر ختم ہوجائے اور یہ کام شروع کردیا ، بعض جگہوں پر حملہ اور خراب کاری نے ان کو یہ بہانہ دیدیا ، اگر چہ تمام مسئولون نے اس غلط بات کی مذمت کی ہے ۔
انہوں نے بیان فرمایا : آج تمام پردے ہٹ گئے ہیں اورسعودی عرب کا باطن بھی ظاہر ہوگیا ہے ، ایک مغربی اخبار نے لکھا ہے کہ سعودی عرب ،تیل، کھجور اور دہشت گرد بناتا ہے ، مغرب والوں پر بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ دہشت گردی کا ٹھکانہ اور مرکز سعودی عرب ہے ، فرمایا : تکفیری نظریات ابھی بھی ان کے مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں ،علماء کو چاہئے کہ ان نظریات کو استدلال اور منطق کے ساتھ ختم کردیں تاکہ لوگ ان کے دھوکے میں نہ آئیں ، ہم نے اپنے حصہ کے مطابق کام کیا ہے اور مستقبل میں بھی کام انجام دیتے رہیں گے ۔
معظم لہ نے یاد دہانی فرمائی :علاقہ میں تمام مشکلات کی بنیادیںوہابیت تکفیری کی طرف پلٹتی ہیں ، یہ لوگ جب تک ان اعتقادات کو ترک نہیں کریں گے اور اسلامی صفوف کی طرف نہیں آئیں گے اس وقت تک یہ مشکل باقی رہے گی ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے فرمایا : اگر چہ دشمن بھی ان مسائل کی طرف رغبت دلاتے ہیں ، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ شیعہ اور سنی کی جنگ کا فتنہ بپا کر کے اپنے غلط اہداف تک پہنچ جائیں ، ہم خداوندعالم سے دعا کرتے ہیں کہ تمام مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں اور اتحاد و اتفاق سے دشمنوں کو ناامید کردیں ۔