آیت اللہ مکارم شیرازی نے سیستان و بلوچستان کے علماء کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ جہان اسلام کی آج بدترین صورتحال ہے جب ہم شام، عراق، پاکستان، مصر، یمن، بحرین اور دوسرے اسلامی ممالک کو دیکھتے ہیں تو ہر طرف ہمیں دشمن کی سازشیں کارفرما نظر آتی ہیں ۔
انہوں نے کہا: اگر چہ مصر میں انتخابات ہو گئے ہیں لیکن ابھی بھی مصر امن و سکون سے دور ہے دوسرے اسلامی ممالک میں بھی دشمن کامیابی کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔
آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی نے مزید کہا: دشمنوں نے بہت پلاننگ کے ساتھ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے دست و گریباں کر رکھا ہے تاکہ اسرائیل پلید سے مسلمانوں کی توجہ ہٹ جائے ۔
جہان تشیع کے اس مرجع تقلید نے یہ سوال پوچھتے ہوئے کہ کیا امت اسلام کی ناگفتہ بہ حالت ہمیں جگانے کے لیے کافی نہیں ہے؟ کہا: تمام اسلامی ممالک میں سے صرف اسلامی جمہوریہ ایران ہے جس میں شیعہ و سنی امن و سکون کے ساتھ آپس میں زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے درمیان کوئی مشکل نہیں پائی جاتی لیکن دیگر اکثر ممالک میں فرقہ واریت کی آگ جل رہی ہے ۔
موصوف نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ امت مسلمہ کے درمیان تفرقے کی آگ لگانا قرآن کی نظر میں ایک قسم کا شرک ہے کہا: اگر انسان مسلمانوں کی اس صورتحال کو دیکھ کر گریہ کرے تو وہ بھی ناکافی ہے دشمن تفرقے کی آگ بڑھکا کر خود تماشا دیکھ رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا: کیا ایسے شرائط میں علما کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ ہمیں مسلمانوں کے خبردار نہیں کرنا چاہیے؟ کیا ہمیں انہیں اتحاد اور اتفاق سے رہنے کی ہر وقت نصیحت نہیں کرنا چاہیے؟
آیت اللہ مکارم شیرازی نے مزید کہا: مسلمانوں کے درمیان موجود مشکلات کا راہ حل قتل و غارت نہیں ہے بلکہ ان مشکلات کا حل آپسی اتحاد و ہمدلی کو محفوظ رکھتے ہوئے دوستانہ نشستیں اور گفتگو ہے ۔
حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی نے بیان کیا کہ میں نے متعدد بار عرض کیا ہے کہ اسلامی مذاہب کے درمیان اختلاف زیادہ نہیں ہے ، البتہ اس وقت جب ایک ساتھ بیٹھ جائیں اور باتیں کریں ، دو ر نہ بیٹھیں اور دشمنوں کی جھوٹی تہمتوں پر توجہ نہ دیں ۔
معظم لہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ امت اسلام کی مشکل قتل و غارت اور فوجی راستہ سے حل نہیں ہوسکتی ، فرمایا : مشکلات اسلامی کا راہ حل اتحاد، مذاکرات کرنا ،ایک دوسرے کے پاس بیٹھنا اور دوستی کی باتیں کرنا ہے ۔
انہوں نے بیان کیا کہ میں کچھ مدت تک ایران کے شہر چابہار اور کچھ مدت کے لئے کردستان کے شہر مہاباد میں جلاوطن تھا اور وہاں پر اہل سنت کے ساتھ میری دوستی تھی اور اب بھی ہمارے آپس میں تعلقات ہیں ۔
انہوں نے کہا: مسلمانوں اور اسلامی فرقوں کے ماننے والوں یا علما کو ایک دوسرے کی توہین کرنے کا بالکل کوئی حق حاصل نہیں ہے ہم ہمیشہ اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ اسلامی مقدسات کی توہین جائز نہیں ہے ۔
انہوں نے مزید واضح کیا : البتہ اگر اہل تشیع یا اہل سنت کے درمیان کچھ لاابالی افراد افراطی رویہ اپنائیں تو یہ معیار نہیں ہے اور اس کا علما سے کوئی تعلق نہیں ہے علماء کو سنجیدگی سے کام لینا چاہیے اور اس قسم کے عناصر پر پابندیاں عائد کرنا چاہیے ۔ کسی بھی مذہب کے علماء معیار ہوتے ہیں میں نے بہت ساری کتابیں لکھی ہیں لیکن کسی ایک کتاب میں بھی سنی مذہب یا سنی عالم دین کی توہین نہیں کی ہے ۔
حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ علماء میں سے کوئی ایک بھی تحریف قرآن کا قائل نہیں ہے ، فرمایا : اس قرآن میںاور اس قرآن میں کوئی فرق نہیں ہے جو حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے اور ایسی باتیں نہیں کرنا چاہئے جس سے آپس میں اختلاف ہو ۔
انہوں نے آخر میں پھر تمام مسلمانوں کو اتحاد اور بھائی چارگی کی طرف دعوت دیتے ہوئے کہا ہمیں اجازت نہیں دینا چاہیے کہ ہمارے اختلافات کی وجہ سے اسلام دنیا میں بدنام ہو ہم خداوند عالم سے دعا گو ہیں کہ اتحاد کی راہ میں قدم اٹھانے والوں کی مدد اور نصرت فرمائے ۔