قیام عاشورا میں ''استکبار ستیزی'' کی خصوصیات

قیام عاشورا میں ''استکبار ستیزی'' کی خصوصیات


ہمارے زمانہ میں بشریت کی سب سے بڑی مصیبت استکبار ہے / امام حسین علیہ السلام کا ہدف ، ظلم ستیزی اور ظالموں سے مقابلہ تھا ۔‌

پہلے مرحلہ میں کہنا چاہئے کہ عاشورا ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک تاریخی واقعہ تھا ، حق و باطل سے جنگ اور عدالت و ظلم کا واقعہ ، یہ جنگ تمام صدیوں میں جاری و ساری ہے (١) ۔ تواریخ کے مطابق امام علیہ السلام کامقصد حکومت یزید سے جنگ تھا ، چاہے اس راہ میں شہید ہی کیوں نہ ہوجائیں اور آپ کی شہادت نے اپنا اثر دکھایا (٢) ۔سید الشہداء کے اصلی ہدف لوگوں کو آگاہ کرنا ، احکام قرآن کونشر کرنا ، عزت، شرافت اور آزادی حاصل کرنا ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظلم و فساد کے ساتھ جنگ کرنا تھا اور یہ چیزیں معاشرہ میں وسیع پیمانہ پر ظاہر ہوگئیں (٣) ۔

معاویہ کے خلاف استکبار ستیزی ،مکتب امام حسین علیہ السلام کی اہم ترین آرزو

ظالم و جابر حکمرانوں خصوصا معاویہ کے خلاف استکبار ستیزی کو بیان کرتے ہوئے امام علیہ السلام کے اس خط کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جو آپ نے معاویہ کو بہت ہی سخت لہجہ میںلکھا تھا ، آپ نے فرمایا ما أَرَدْتُ حَرْباً وَ لا خِلافاً، وَ إِنّي لَاخْشَى اللَّهَ فِي تَرْكِ ذلِكَ مِنْكَ وَ مِنْ حِزْبِكَ الْقاسِطيِنَ الُمحِلِّينَ، حِزْبِ الظَّالِمِ، وَ أَعْوانِ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ....وَ إِنّي وَاللَّهِ ما أَعْرِفُ افْضَلَ مِنْ جِهادِكَ، فَإِنْ أَفْعَلْ فَإِنَّهُ قُرْبَةٌ إِلى رَبِّي، وَ إِنْ لَمْ أَفْعَلْهُ فَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِدينى‏، وَ أَسْأَلُهُ التَّوْفيقَ لِما يُحِبُّ وَ يَرْضى. فی الحال میں تیرے ساتھ جنگ کا ارادہ نہیں رکھتا(کیونکہ میرے بھائی امام حسن علیہ السلام اور تیرے درمیان صلح کے معاہدہ پر دستخط باقی ہیں ) تیرے اور تیری اس قوم کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی وجہ سے خدا سے ڈرتا ہوں کیونکہ تونے حرام خدا کو حلال قرار دے رکھا ہے ! میں تیرے ساتھ جنگ کرنے کے علاوہ کوئی کام بہتر نہیں سمجھتا کیونکہ اگر میں ایسا کام کروں گا تو یہ خدا سے نزدیک ہونے کے لئے بہترین راستہ ہے اور اگر کوئی کام نہ کروں تو (جہاد کو ترک کردوں) خدا سے استغفار کرتا ہوں (٥) ۔

امام علیہ السلام نے یہ خط اس وقت لکھا ہے جب آپ کے پاس کوئی قدرت و طاقت نہیں تھی اور آپ نے اس خط میں اپنی شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے، جبکہ معاویہ جیسے ظالم و جابر حاکم کے پاس سب کچھ موجود تھا لیکن امام علیہ السلام نے بنی امیہ کی ذلت آمیز تاریخ کے گوشوں کو افشاکرتے ہوئے اس پر تنقید کی ، امام حسین علیہ السلام نے اس خط میں پاک و پاکیزہ ، متقی اور بے گناہ لوگوں کے خون بہانے کی طرف اشارہ کیا (٧) ۔

استکبار ستیزی میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا بنیادی کردار

امام حسین علیہ السلام نے اپنی باتوں سے صرف بنی امیہ کے جرائم کو ظاہر نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ تلوار سے جنگ کرنے کیلئے کھڑے ہوگئے اور آپ نے اپنی اس تحریک کا نام ''امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور معاشرہ کے امور کی اصلاح'' رکھا اور اپنے اقوال میں متعدد بار اس بزرگ فریضہ کی یاد دہانی کرائی اور بہت ہی صراحت کے ساتھ اپنی اس تحریک کی علت اسی امر کو احیاء کرنا قرار دیا (٧) ۔

اس مسئلہ کو بیان کرنے میں امام علیہ السلام کی صریح ترین اور رسا ترین تعبیر وہ جملہ ہے جو آپ نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کو وصیت نامہ میں لکھا تھا ، آپ نے فرمایا :  '' وَ إِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي، ارِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهى‏ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَ اسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَ أَبِي عَلِىِّ بْنِ أَبِي طالِبٍ‏'' ۔ میں صرف اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے کھڑا ہوا ہوں ، میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے نانا اور بابا علی بن ابی طالب علیہ السلام کے طریقہ پر چلنا چاہتا ہوں (٨) ۔

امام علیہ السلام نے اس مختصر عبارت میں شروع ہی سے اپنے الہی ہدف کو ظلم و ستم اور استکبار سے مقابلہ کرنا بیان کیا ہے اور آپ کا ہدف ملک کو وسیع کرنا یا مال و دولت حاصل کرنا نہیں تھا ، بلکہ آپ کا ہدف صرف اسلامی معاشرہ کی اصلاح اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کو زندہ کرنا تھا (٩) ۔

ظلم ستیزی میں دین خدا کو احیاء کرنے اہم ضرورت

اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے احیاء دین خدا کو ہدف قرار دیتے ہوئے اپنے قیام کا آغاز کیا ۔ پہلے مرحلہ میں (اگر ممکن ہوتا تو) اسلامی حکومت تشکیل دے کر یہ کام انجام دیتے اور چونکہ یہ ممکن نہیں تھا تواپنی اور اپنے اصحاب و انصار کی شہادت کے ذریعہ اس مقصدتک پہنچے ، بہرحال دین کو واپس پلٹانے اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی فراموش شدہ سنتوں کو زندہ کرنا ضروری تھا اور فرزند رسول خدا (ص) سے زیادہ کون اس کام کا مستحق ہوسکتا تھا ۔

امام حسین علیہ السلام نے اس جملہ '' وَ عَلَى الْإِسْلامِ السَّلامُ اذْ قَدْ بُلِيَتِ‏ الْأُمَّةُ بِراعٍ مِثْلَ يَزِيدَ؛ زمانى كه امّت اسلامى گرفتار زمامدارى مثل يزيد شود، بايد فاتحه اسلام را خواند '' ۔ جس وقت اسلامی امت ، یزید جیسے کی حکومت میں گرفتار ہوجائے تو اسلام کی فاتحہ پڑھ لینا چاہئے (١٠) ۔ کے ذریعہ اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ یزید جیسے کی خلافت کے ہوتے ہوئے اسلام کی کوئی امید نہیں ہے اور یزید کی حکومت میں دین خدا کے باقی رہنے کی کوئی امید نہیں ہے (١١) ۔

استکبار ستیزی اور آزادگی

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حقیقت میں انسانی بہترین صفات کی پرورش کیلئے ظلم ستیزی ایک مکتب ہے ، انہی صفات میں سے ایک صفت آزادگی ہے ، امام حسین علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں : '' وَيْحَكُمْ يا شيعَةَ آلِ أَبي سُفْيانَ! إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ دينٌ، وَ كُنْتُمْ لا تَخافُونَ الْمَعادَ، فَكُونُوا أَحْراراً في دُنْياكُمْ هذِهِ، وَارْجِعُوا إِلى‏ أَحْسابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ عَرَبَاً كَما تَزْعُمُونَ'' ۔ اے آل ابوسفیان کی پیروی کرنے والوں ! وائے ہو تم پر ! اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے تو قیامت کے دن سے ڈرو ،کم سے کم اپنی دنیا میں آزاد رہو اور اگر خود کو عرب سمجھتے ہو تو اپنی عربی عادت و اطوار کی پابندی کرو ۔

یقینا اللہ کی مرضی حکمت سے خالی نہیں ہے ،خدا کی حکمت اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ امام اور ان کے اصحاب و انصار کی شہادت اور ان کی بہنوں اور بیٹیوں کی اسارت کے ذریعہ ظالم و جابر حکمرانوں اور بے ایمان بنی امیہ کے ذلت آمیز چہرہ سے نقاب اٹھ جائے اور تمام مسلمان ان کے خلاف شورش بپا کریں اور دوسری طرف امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب تاریخ میں مظلوم قوموں کے لئے نمونہ قرار پائیں اور سب لوگ ان کے مکتب سے آزادگی کا درس حاصل کریں (١٤) ۔ لہذا آزادگی ، شجاعت ، دین سے دفاع اور اسلامی اقدار امام حسین علیہ السلام کے نام سے کبھی جدا نہیں ہوسکتے (١٥) ۔

استکبار ستیزی کی بنیادی خصوصیت عدالت کو قائم کرنا

حضرت سیدالشہداء علیہ السلام نے کوفہ والوں کے نام خط میں اپنے قیام کا ایک ہدف ظلم وستم کو روکنا اور عدالت کو قائم کرنا بیان کیا ہے اور فرمایا ہے : یقینا آپ جانتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی میں فرمایا تھا : جو شخص بھی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے کہ(جس کے ظلم و جور کی وجہ سے) حرام کو حلال کیا جارہا ہے اور الہی عہد و پیمان کو پورا نہیں کیا جارہا ہے ، رسول خدا کی سیرت اور سنت کی مخالفت کی جارہی ہے ، بندگان خدا کے درمیان گناہ ہورہے ہیں اورایسے ظالم و جابر حاکم کے مقابلہ کیلئے کوئی کام ا نجام نہیں دیا جارہا ہے (١٦ ) تو خداوندعالم ایسے شخص کو اسی ظالم و جابر کے ساتھ قرار دے گا (اور ان دونوں کا نتیجہ ایک جیسا ہوگا ) (١٧) ۔

امام حسین علیہ السلام نے اس خط میں جس میں ظاہری طور پر کوفہ کے لوگ مخاطب تھے ، لیکن حقیقت میں اس خط کے مخاطب دنیا کے تمام آزاد انسان تھے ، ظلم و ستم اور بے عدالتی سے جنگ کرنے کیلئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم) کے پیغام کو بیان کیا ہے اور اپنے قیام کے ہدف کا اعلان کرتے ہوئے تمام لوگوں کو اس جنگ میں شریک ہونے کی دعوت دی ہے (١٨) ۔

امام علیہ السلام نے روز عاشورا ،کوفہ کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے عدالت کے متعلق بیان کیا اور فرمایا کہ معاشرہ میں حاکم کو عدالت سے کام لینا چاہئے : وَ يَداً عَلَيْهِمْ لِأَعْدائِكُمْ، بِغَيْرِ عَدْلٍ‏ أَفْشَوهُ فيكُمْ (١٩) ۔ اور تم لوگ اپنے دشمن کی مدد کرنے کیلئے متحد ہوگئے ، جبکہ وہ تمہارے ساتھ عدالت سے کام نہیں لے رہے تھے ۔

بشریت کو طاغوت سے نجات دلانے میں استکبار ستیزی کا اہم کردار

مکتب امام حسین علیہ السلام میں استکبار ستیزی کی ایک خصوصیت جو کہ زیارت اربعین میں بھی ذکر ہوئی ہے ،جہل سے مقابلہ اور لوگوں کو ضلالت و گمراہی سے نجات دلانا ہے (٢٠) ۔ جیسا کہ معصومین علیہم السلام کی زبان سے نقل ہوا ہے : '' وَبَذَلَ مُهْجَتَهُ‏ فيكَ لِيَسْتَنْقِذَ عِبادَكَ مِنَ الْجَهالَةِ، وَحَيْرَةِ الضَّلالَةِ '' ۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے دل کا خون تیری راہ میں قربان کردیا (اور ایثار و فداکاری کی انتہاء کردی) تاکہ تیرے بندوں کو جہل و نادانی اور حیرت وسرگردانی سے نجات دلا سکیں (٢١) ۔

آخری بات

آج انسانی معاشرہ میں مفاسد پھیلانے اور معاشرہ کو پریشان کرنے میں استکبار کا مسئلہ پیش پیش ہے اورہمارے زمانہ کی سب سے بڑی مشکل یہی استکبار ہے (٢٢) ۔ لہذا امام حسین علیہ السلام کا ہدف ظلم ستیزی اور ظالموں سے مقابلہ کے علاوہ کچھ نہیں تھا (٢٣) لیکن اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ ظلم ستیزی کا مسئلہ ،دنیائے اسلام میں منحصر نہیں ہے ، امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں نسل بشریت کو جو تعلیمات عطا کی ہیں ، وہ امت کی تمام مشکلات کو دورے کرنے لئے راہ گشا ہیں (٢٤) ۔

اس بناء پر عاشورائے حسینی کی تاریخ کا دقیق مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ کربلا اور عاشورا ایک تاریخی حادثہ سے نکل چکا ہے اورایک مکتب میں تبدیل ہوچکا ہے ،ایسا مکتب جو انسان ساز اور آفتخار آمیز ہے (٢٥) ۔ یہ مکتب صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہے بلکہ اسلام کی سرحدوں سے گزر کر دوسری قوموں کیلئے بھی نمونہ عمل بن چکا ہے (٢٦) ۔

منابع و مآخذ:
تنظیم و ترتیب اور تحقیق   ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی طرف سے اہل قلم کی ایک جماعت
دفتر حضرت ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی دام ظلہ www.makarem.ir
حوالہ جات:

١ ۔  احکام عزاداری ، صفحہ ٣٢ ۔

٢۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ ١٣١ ۔

٣ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ ١٤٦ ۔

٤ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا، صفحہ ٢٨٠ ۔

٥ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ ٢٨٣ ۔

٦ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ ٢٨٤ ۔

٧ ۔  گزشتہ حوالہ ،صفحہ ٢٤١ ۔

٨ ۔  فتوح ابن اعثم ، جلد ٥ ، صفحہ ٣٣ ۔ بحارالانوار ، جلد ٤٤ ،صفحہ ٣٢٩ ۔

٩ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا، صفحہ ٢٤٣ ۔

١٠ ۔  ملہوف (لہوف) ، صفحہ ٩٩ ۔ بحارالانوار ، جلد ٤٤، صفحہ ٣٢٦ ۔ فتوح ابن اعثم ، جلد ٥، صفحہ ٢٤ ۔

١١ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا، صفحہ ٢٣٢ ۔

١٢ ۔  احکام عزاداری ، صفحہ ٣٠ ۔

١٣ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا، صفحہ ٣٥١ ۔

١٤ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ ٣٥٢ ۔

١٥ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ ٥٦ ۔

١٦ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٩٧ ۔

١٧ ۔  بحارالانوار ، جلد ٤٤، صفحہ ٣٨٢ ۔

١٨ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٩٨ ۔

١٩ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا، صفحہ ٤٢١ ۔

٢٠ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٧٣ ۔

٢١ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

٢٢ ۔  اخلاق در قرآن ، جلد ٢ ، صفحہ ٢١ ۔

٢٣۔ عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا، صفحہ ٨١ ۔

٢٤ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ ٨٩ ۔

٢٥ ۔  گزشتہ حوالہ ،صفحہ ٦٩١ ۔

٢٦ ۔  گزشتہ حوالہ ،صفحہ ٦٩٢ ۔
captcha