سوال :
بہت سے بہن اور بھائیوں نے اپنے متعدد خطوط میں لکھا ہے : اگر حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (دامت برکاتہ) فیس بک پر عضویت کے حرام ہونے کی دلیل کو بیان فرما دیں تو ہم بہت ممنون و مشکور ہوں گے اور سوال کرنے والوں کے لئے جواب ہوگا ۔
انہوں نے جواب میں اس طرح فرمایا :
میرے عزیزو ! اس کی دلیل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ فساد اور مختلف قسم کے گناہ منتشر ہوتے ہیں ۔
کیونکہ فیس بُک ایسے دور و دراز شہر کی طرح ہے جس میں تمام علماء ،دانشوروں ، چورروں ، شکار کرنے والوں اور مختلف قسم کے فساد میں آلودہ لوگوں کی دُکانیں ہیں اور ان دُکانوں میں کبھی ضرورت زندگی کے وسائل ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر و بیشتر میں گناہ ، فساد اور اخلاقی انحراف بہت زیادہ پایا جاتا ہے اور مختلف قوموں کے درمیان خوبصورت اشتہار پر اختلاف ایجاد کیا جاتا ہے اور دھوکا دینے والی نقابیں جو سب کے اختیار میں ہوتی ہیں ۔
اب اگر اس شہر میں سب کا داخلہ یعنی کم عمر بچے سے لے کر بوڑھے افراد ، عالم اور جاہل سب کے لئے ممکن ہوجائے تو کیا عالم اور با خبر انسان ایسے شہر کو آزاد چھوڑ سکتا ہے ؟
یہاں تک کہ جوسوس اور مفسد فی الارض بھی اس شہر میں اپنی خبروں کو ایک دوسرے تک پہنچا سکتے ہیں اور رمزو رموز اور اشاروں کے ذریعہ فتنہ کا بیج بوسکتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ مطبوعات ، اخبار اور دوسرے مواصلاتی وسائل پر بھی نظارت ہونی چاہئے تاکہ فاسد اور مفسد لوگ اس کے ذریعہ معاشرہ کو آلودہ نہ کرسکیں ۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر کس طرح فیس بُک کو ہر طرح کی قید و شرط سے آزاد ہوسکتی ہے ، کیا دنیا میں بغیر قید و شرط کی آزدی موجود ہے ؟ بعض مغربی محدودیت کسی طرح بھ مشکل کو حل نہیں کرسکتیں اور اشکال و اعتراض کو بڑھانا ، مشکل کا حل نہیں ہے ۔
جی ہاں ! اگر اس مخصوص شہر میں ایسے علماء اور دانشور داخل ہوں جو اچھی طرح اچھائی اور برائی کو پہچانتے ہوں اور نیک و بد کو تشخیص دیتا ہو تو ان کو اجتماعی تحقیقات کے لئے داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بالکل کتب ضلال کی طرح کہ جن کا مطالعہ ، فقہاء نے عام لوگوں کے لئے حرام قرار دے رکھا ہے ، لیکن مذہبی محققین کے لئے آزاد چھوڑ رکھا ہے ۔ والسلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ
دفتر حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (دامت برکاتہ) ۔
فیس بُک کی عضویت کے حرام ہونے کی دلیل کے متعلق معظم لہ سے استفتاء
فیس بُک ایسے دور و دراز شہر کی طرح ہے جس میں تمام علماء ،دانشوروں ، چورروں ، شکار کرنے والوں اور مختلف قسم کے فساد میں آلودہ لوگوں کی دُکانیں ہیں اور ان دُکانوں میں کبھی ضرورت زندگی کے وسائل ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر و بیشتر میں گناہ ، فساد اور اخلاقی انحراف پایا جاتا ہے جو سب کے اختیار میں ہوتا ہے ۔