جنگ جہانی اول و دوم اور مغرب کا ایک اہم حصہ ویران ہونے اور لاکھوں افراد کے قتل اور مجروح ہونے کے بعد مغرب والوں نے ایک ادارہ بنانے کی کوشش کی تاکہ مستقبل میں ایسی جنایات اور وحشی گری کو روکا جاسکے اور یہ بات طے ہوگئی کہ پوری دنیا میں کسی بھی جگہ اس ادارہ کی اجازت کے بغیر کوئی جنگ نہیں ہوگی ، اگر چہ یہ کوشش کی گئی کہ اپنی ویٹو کی طاقت اور اسی طرح کے دوسرے حقوق کو استعمال کرتے ہوئے مذکورہ ادارہ کو اپنے فائدے میں استعمال کریں ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ اب یہ طاقتور ملک اس جگہ پر پہنچ گئے ہیں کہ اس ادارہ کی بات کو قبول نہیں کرتے اور بنیادی طور پر یہ لوگ ہر کام کو خود ا رادہ کرتے ہیں ، ایک طرف دنیا لشکر کشی کررہی ہے اور دوسری طرف دنیا جس ملک کو اپنے ناجائز مقاصد میں حاصل نہیں کر پارہی ہے اس کو ویران کرنا چاہتی ہے ، یعنی بالکل جنگل راج کی طرف پلٹ رہی ہے !
کبھی کہتے ہیں کہ ہماری کانگریس یا پارلیمنٹ اس کی منظوری دے گی ، کوئی ایسی حکومت نہیں ہے جو ان سے سوال کرے کہ تمہارے پالیمنٹ یا کانگریس کے اعضاء کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ غلط بہانوں کے ذریعہ دوسرے ملک کے متعلق فیصلہ کریں ؟ ان کو کس نے یہ حق دیا ہے ؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ شام کی حکومت نے اپنی عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں لہذا ان کو سزا دینی چاہئے ۔ اگر فرض کرلیں کہ ایسا ہی ہوا ہے تو تحقیق کرنے والے جائیں اور تحقیق کریں اور ایک عالمی عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے بعد ان کو سزا دی جائے ۔ تو خود گواہ ہو ، خود ہی قاضی ہو اور خود ہی قانون کو جاری کرنے والو ہو ، کس قانون کے تحت یہ سب کررہے ہو ؟ واقعا تعجب کی بات ہے !
گذشتہ زمانہ میں اس کام کے لئے یوروپ کے دو تین ملک ، امریکہ کے ساتھ مل جاتے تھے اور اس کا نام بین الاقوامی اتفاق رائے رکھتے تھے اور اب یوروپ کے ان ملکوں کو بھی دور دفعہ کردیا گیا ہے اور امریکہ خود دنیا کے دوسرے ملکوں کے متعلق فیصلہ کرنا چاہتا ہے ، وہ بھی جھوٹے بہانوں کو ڈھال بناتے ہوئے ۔ ہماری رائے کے مطابق اس وقت کی یہ سب سے بڑی ذلت اور رسوائی ہے ۔
بین الاقوامی برادری اعتراض کیوں نہیں کرتی ؟ اس جھوٹی حکومت کو عالمی عدالت میں کیوں نہیں لاتے ؟ کیوںکہ سب لوگ ڈرتے ہیں یا ان کے اپنے کچھ فائدے ہیں ، دنیا کے دوسرے ممالک کو دھمکی دینا اور ان کے خلاف عملی اقدام کرنا جرم ہے ، امریکی صدر کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے ۔
اور اس سے بھی زیادہ رسوائی کی بات یہ ہے کہ بعض عربی حکومتیں جو ظاہری طور پر اپنے آپ کو اسلامی حکومتیں کہتی ہیں ، ایک کٹھ پتلی کی طرح ہم جنس پرستوں کے ہاتھوں میں بازیچہ ہیں جو اسلامی ممالک کو خراب کرنے کے لئے ان کی مدد کرتے ہیں ، یقینا اگر خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں تو قیامت کے روز خداوند عالم کی بارگاہ میں کیا جواب دیں گے ۔
کیا علمائے اسلام کی ذمہ داری نہیں ہے کہ سب مل کر ان کے خلاف آواز بلند کریں اور اس غنڈہ گردی کی قاتلانہ کاروائیوں کی مذمت کریں اور اسلامی قوموں کو ان کے خلاف قیام کرنے کی دعوت دیں ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ آخر کار خدا وند عالم کی قدرت ، عدالت کی آستین سے باہر نکلے گی اور ان خوں خوار ظالموں سے بدلہ لے گی '' ان ربک لبالمرصاد'' ۔
امریکہ کی طرف سےشام کوجنگ کی دھمکی دینےکےمتعلق معظم لہ کاپیغام
گذشتہ زمانہ میں اس کام کے لئے یوروپ کے دو تین ملک، امریکہ کے ساتھ مل جاتے تھے اور اس کا نام بین الاقوامی اتفاق رائے رکھتے تھے اور اب یوروپ کے ان ملکوں کو بھی دور دفعہ کردیا گیا ہے اور امریکہ خود دنیا کے دوسرے ملکوں کے متعلق فیصلہ کرنا چاہتا ہے ، وہ بھی جھوٹے بہانوں کو ڈھال بناتے ہوئے ۔ ہماری رائے کے مطابق اس وقت کی یہ سب سے بڑی ذلت اور رسوائی ہے ۔