حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب فرہاد اور یونیورسٹی کی ٹرسٹ سے ملاقات کے دوران یونیوسٹیوں میں اسلامی مسائل کی رعایت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا : مغربی لوگ اپنے فاسد تہذیب اور ثقافت کو کتابوں میں جعلسازی کرتے ہیں اور جوانوں کودیدیتے ہیں اگر ہم بیدار نہ ہوئے تو بہت بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
انہوں نے مزید فرمایا : البتہ اگر کسی کے پاس علم ہو تو میں اس کو قبول کرتے ہیں اور علم کا احترام ضروری ہے لیکن اس میں فاسد تہذیب و ثقافت نہیں ہونا چاہئے اور علم کے نام پر جوانوں کو غلط تعلیم نہیںدیناچاہئے ۔یونیورسٹیوں کو بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے ،کتابوں کی بہت ہی اچھے طریقہ سے تحقیق کرنا چاہئے تاکہ علم کے نام پر ان میں انحرافی مسائل پیدا نہ ہوں ۔
معظم لہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ یونیورسٹیوں کو اپنے تین معیار و ملاک جیسے پروگرام، کتابیں اور اساتید پر بہت زیادہ توجہ دینا چاہئے ، فرمایا :
اگر ہم چاہتے ہیں کہ یونیورسٹیاں اسلامی ہوجائیں تو ان تینوں ملاک بھی اسلامی ہونے چاہئیں ، اگر ایک معیار اسلامی ہو اور دوسرا اسلامی نہ ہو توکوئی مشکل حل نہیں ہوگی ۔
انہوں نے مزید فرمایا : اگر بہترین کتابیں اور بہترین پروگرام موجود ہوں لیکن اساتید میں مشکل ہو تو پھر شاگردوں کی تربیت دوسرے ہی طریقہ سے ہوگی ، سائنسی علوم کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی ممکن ہے کہ مغربی اور بے دینی تہذیب و ثقافت داخل ہوجائے لیکن سائنسی علوم میں بہت زیادہ چھان بین کی ضرورت ہے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اس طرح سے پروگرام مرتب کئے جائیں کہ سائنس کی پیدائش میں ترقی ہو، فرمایا : سائنس کی پیداوار کے متعلق جو عقب ماندگی ہے اس کی تلافی ضروری ہے ، الحمدللہ حال ہی میں جو چیز منعکس ہو رہی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ بہت اچھے علمی مقالات لکھے گئے ہیں اور انٹرنیشنل محافل میں ان کوقبول کرلیا گیا ہے ،ان پروگراموں کو بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ جاری رکھنا چاہئے ۔
معظم لہ نے فرمایا : طالب علموں کی مذہبی بنیادیں قوی ہوجائیں تو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی اور مدرسہ کے اعتقادات کی بنیادیں محکم ہوجائیں تو انسان کے اندر اسلامی معاشرہ اور ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ بڑھے گا ۔
انہوں نے مزید فرمایا : اکر یہ اعتقاد نہ پایا جائے تو پھر انسان کے لئے مادیت اور ڈالر ملاک و معیار ہوگا ، ایک گروہ کو اس مسئلہ کے متعلق غور وفکر کرنا چاہئے اور اس کے راستہ تلاش کرنا چاہئے تاکہ تمام مشکلات برطرف ہوجائیں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہر ملک میں اچھی استعداد کے طلباء موجود ہوتے ہیں لیکن یونیورسٹی کی فیس نہ ہونے کی وجہ سے محروم رہ جاتے ہیں ، فرمایا : ایسے طلباء کو قرض دیا جائے لیکن معاشرہ کے سرمایہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیں ، معاشرہ کا اہم سرمایہ ، انسانی شرمایہ ہے ، جنگ جہانی دوم میں جاپن اور جرمن ختم ہوگئے تھے لیکن ان کے پاس اچھے انسان موجود تھے جنہوں نے بہت ہی کم مدت میں اپنے آپ کو دوبارہ تیار کرلیا اور آج ان کا شمار دنیا کے اہم ممالک میں ہوتا ہے ۔
انہوں نے مزید فرمایا : استعداد رکھنے والے طلباء کی حفاظت کرنا چاہئے اور ضرورت مند افراد کی مدد کرنا چاہئے تاکہ یہ استعداد ختم نہ ہوجائے ، ہمارا نظام اسلامی ہے جس کا نام اسلامی جمہوریہ ہے ، جمہوریت کے معنی تمام میدانوں میں لوگوں کا موجود ہونا ہے اور اسلام کو بھی تمام میدانوں میں موجود ہونا چاہئے ۔
انہوں نے فرمایا : مذہب فقط آخرت کے لئے نہیں ہے بلکہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو مذہبی ہیں اور وہ بہت ہی مفید اور کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ مذہبی افراد میں معنوی جذبہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ چوری اور خیانت وغیرہ نہیں کرتے ، دینی اور معنوی سرمایہ کی حفاظت بہت ضروری ہے ۔