بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایام منی سے جس قدر نزدیک ہوتے جارہے ہیں اسی قدر گزشتہ سال کے شہیدوں کی دردناک شہادت کا منظر آنکھوں کے سامنے آرہا ہے اور سبھی لوگ اس کام کو انجام دینے والوں پر لعنت اور بد دعاء کر رہے ہیں۔
یقینا یہ جانگداز حادثہ آل سعود کے دامن پر ایک داغ تھا جو اپنے آپ کوحجاج کی حفاظت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور یہ ایسا داغ ہے جو کسی بھی پانی سے پاک نہیں ہوسکتا ۔
اسی طرح یہ داغ حقوق بشر کا دم بھرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کے دامن پر لگ گیا ہے کیونکہ انہوں نے اس عجیب و غریب قتل و کشتار پر کوئی عکس ا لعمل ظاہر نہیں کیا اور انہوں نے اس سلسلہ میں تحقیق اور تفحص کرنے کیلئے زحمت قبول نہیں کی اوران کی میڈیا بھی سعودی عرب کے ساتھ تھی ۔
جبکہ اگر کسی یوروپی ملک میں چند لوگوں کو قتل کردیا جائے تو عمومی عزا ء کا اعلان ہوجاتا ہے اور تمام ممالک کے حکمران جمع ہوجاتے ہیں تاکہ اس کے لئے کوئی تدبیر کرسکیں لیکن کئی ہزار بے گناہ انسانوں کو بہت آسانی سے پائمال کردیا گیا لیکن سب خاموش رہے کیونکہ وہ سب سعودی عرب کے کثیف مال و دولت سے مالا مال ہیں ۔
یہ شہداء ، خدا کے مہمان تھے ، ضیوف الرحمان تھے اور سرزمین وحی پر الہی بزرگ فریضہ کو انجام دینے میں مشغول تھے اور رہبر معظم حضرت آیة اللہ العظمی خامنہ ای (مدظلہ العالی) کے بقول ''آل سعود نے عذر خواہی تک نہیں کی '' ۔
اگر عقل و درایت ہوتی تو عذر خواہی کے علاوہ شہدائے منی کے اہل خانہ کو مسجد الحرام اور حج کی دعوت دیتے ،ان کا استقبال کرتے اور ا ن کی دلجوئی کرتے اور ان کے نقصانات کو کامل طور پر ا دا کرتے اور اعلان کرتے کہ ہم اس سلسلہ میں تحقیق کریںگے ، اور جن لوگوں نے غلطی کی ہے (یقینا انہوں نے غلطی کی ہے) ان سب کو سزا دیں گے لیکن انہوں نے ایسی تدبیر سے دریغ کیا!
ان سب سے زیادہ افسوس کی بات سعودی عرب کے خریدے ہوئے مفتیوں کے فتوے تھے وہ مفتی جو سعودی عرب کے سیاسی غلام شمار ہوتے ہیں ، انہوں نے کبھی تو یہ کہا کہ سعودی حکومت کی کوئی غلطی نہیں ہے ، خود مرنے والوں کی غلطی ہے اور کبھی کہا کہ یہ خدا کی تقدیر اور مقرر شدہ امور ہیں جن سے بچا نہیں جاسکتا اور اسی طرح کی دوسری باتیں بیان کیں۔
آل سعود جان لے کہ یہ بات زمانہ کے گزرنے کے ساتھ فراموش نہیں ہوگی اور جن لوگوں کے عزیز اس حادثہ میں شہید ہوئے ہیں وہ ہمیشہ ان پر لعنت کرتے رہیں گے اور ایک روز ان کا انتقام لیں گے ۔
ان ربک لبالمرصاد ۔