حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے عراق کے امور میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ نیکولائی مادنف سے ملاقات کے دوران یہ بیان کرتے ہوئے کہ انسانی معاشرہ، تمام زمانوں خصوصا دور حاضر میں ایک دوسرے سے ارتباط رکھتا ہے ، فرمایا : اگر انسانی معاشرہ کے کسی گوشہ کو نقصان پہنچے تو یہ نقصان سب کو ہوتا ہے اور اگر وہ گوشہ نقصانات سے نجات حاصل کرلے تو اس کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے ۔
انہوں نے مزید فرمایا : عراق کی مشکلات صرف اس ملک اور اس کے پڑوسی ممالک کو نہیں ہے بلکہ یہ پورے انسانی معاشرہ کی مشکل ہوسکتی ہے ، ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ تکفیریت کا مسئلہ جو کہ عراق کی مشکل ہے وہ اس ملک کی سرحدوں کو عبور کرتا ہوا تمام انسانی معاشروں یہاں تک کہ یوروپی ممالک کو بھی چیلنج کررہا ہے ۔
معظم لہ نے ''اسلام ، مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات اور ان کے حل سے متعلق منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس'' کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اس بین الاقوامی کانفرنس میں ہم نے تمام انسانی معاشروں کو تکفیری تحریکوں سے لاحق ہونے والے خطرات کو بیان کیا ہے اور اگر سب لوگ اسی طرح غورو فکر کریں تو یہ مشکلات بہت جلدی حل ہوجائیں گی ۔
انہوں نے مزید فرمایا : ایک دوسرا موضوع جس کو ہم نے اس بین الاقوامی کانفرنس میں اپنا بنیادی اصول قرار دیا ہے وہ مذاہب کا دوسروں کے مقدسات کی توہین نہ کرنا تھا اور وہاں پر ہم نے مختلف مذاہب کے درمیان ایک مسالمت آمیز عملی منظر دیکھا اور آخیر تک اس اصل و قانون پر پابند رہے اور دینی بھائی چارگی کی تقویت کی ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ یہ تکفیری اپنے انحرافی عقاید کی وجہ سے وحشتناک جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ، فرمایا : فوج کی مدد سے ان کے ساتھ جنگ کرنا اگر چہ ضروری ہے ،لیکن کافی نہیں ہے بلکہ علمائے اسلام اور مفکرین کے ذریعہ ان کے عقاید کو ختم کیا جائے تاکہ تکفیریت جڑ سے ختم ہوجائے ۔
انہوں نے تصریح کی : اگر چہ ان کے انحرافی افکار سے جنگ کرنا علمائے اسلام کی ذمہ داری ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ ہم جو کچھ بیان کرتے ہیں اُسے میڈیا پوری دنیا میں منتشر کرے ، جبکہ ہمیں جو خبریں دی گئی ہے اس کے مطابق افسوس کی بات ہے کہ مغربی میڈیا نے ''تکفیری اور فراطی گروہوں کے متعلق منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس'' کو نشر کرنے سے پرہیز کیا اور اس خبر کو حذف کردیا گیا جبکہ یہ بین الاقوامی کانفرنس سب کے فائدہ میں منعقد ہوئی تھی ۔
معظم لہ نے تاکید کی : تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے متعلق بعض ممالک دوہری پالیسیاں انجام دے رہے ہیں ، ایک طرف تو ان کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف پوشیدہ طور پر ان کی مدد کرتے ہیں ، کون ممالک ہیں جو داعش کو اسلاح فراہم کررہے ہیں اور ان کے غصب شدہ تیل کو خرید رہے ہیں ؟ یہ گروہ داعش تیل چوری کرکے کن ممالک کو بیچ رہا ہے ؟
انہوں نے یاد دہانی فرمائی : کیا آپ اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی ذمہ داری نہیں ہے کہ ان حکومتوں کو وارننگ دیں کہ اس طرح کی دوہری پالیسیوں کو چھوڑ دیں تاکہ داعش ختم ہوجائے ، اس بات کا یقین کرلیں کہ اگر دہشت گرد گروہ داعش کی مدد نہ کی جائے اور علمائے اسلام کی ایسی ہی فکریں ان پر حملہ کرتی رہیں اوراسی طرح عراقی حکومت اپنی فوج اور رضاکارانہ افراد کی مدد سے ان پر حملہ کرتے رہیں تو چند مہینوں میں ان دہشت گردوں کو صفایا ہوجائے گا ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ میڈیا پر ایسے مطالب بیان ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہمیں داعش کے ساتھ مغربیوں کے مقابلہ کے متعلق شک و شبہہ ہوجاتا ہے ، فرمایا : پہلی بات یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاھو نے وضاحت کے ساتھ اعلان کیا کہ ہم نے داعش کو آزاد چھوڑ رکھا ہے تاکہ مسلمانوں اور داعش میں جنگ ہوتی رہے اور وہ ایک دوسرے کو قتل کرتے رہیں تاکہ ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچ سکے ۔
انہوں نے مزید فرمایا : دوسری بات یہ ہے کہ بعض مغربی ممالک نے کہا تھا کہ داعش کا مسئلہ آئندہ تیس سال تک جاری رہے گا ، کیا اس قول کے معنی دہشت گرد گروہ داعش کو اپنا کام جاری رکھنے کیلئے چراغ سبز دکھانے کے برابر نہیں ہے ؟ آپ کو ان مسائل میں اچھی طرح مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی بنیادوں کو اچھی طرح حاصل کرکے غوروفکر کر سکو ۔
معظم لہ نے ملادنف کی باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن میں انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گرد گروہ داعش سے آزادہ شدہ علاقوں میں مختلف مذاہب کاآپس میں اختلاف ہونے سے پریشان ہیں، فرمایا : جو علاقے دہشت گرد گروہ داعش کے ہاتھوں سے آزاد ہوئے ہیں ان میں مختلف مذاہب کی طرف سے عدالت کے جاری ہونے کے متعلق فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،آپ مطمئن رہیں کہ عراق میں مختلف مذاہب فی الحال ایک دوسرے سے مدد طلب کررہے ہیں ۔
انہوں نے مزید تصریح کی : داعش ایک چھوٹی سے جمعیت ہے جس کے منابع اور ضرورت کی چیزوں کو عراق کی فوج اور عوام تباہ وبرباد کررہے ہیں ، اگر باہر سے ان کی مدد نہ کی جائے تو کیا ممکن ہے کہ یہ ایک سال تک ثابت قدم رہ پائیں گے ؟ ایک چھوٹی سی جمعیت کس طرح ایک قدرت مند فوج اور عوام کے سامنے کھڑی رہ سکتی ہے ، کیوں اعلان کرتے ہیں کہ سالہا سال باقی رہے گی ؟
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے بیان فرمایا : ہم پوری دنیا سے دہشت گرد گروہ کو نیست و نابود کرنے میں اپنی پوری قدت صرف کردیں گے لیکن افسوس کہ ہم مغربی ممالک کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں ۔
انہوں نے اپنی گفتگو کے اختتام پر عراق میں امنیت کے قائم ہونے کیلئے ہر طرح کے اقدام کا استقبال کیا اور عراق کے امور میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ کے انسانی حقوق اور بشردوستانہ اقدامات کی قدرد انی کی ۔