حضرت حسن بن علی بن ابی طالب (علیهم السلام) شیعوں کے دوسرے امام، سبط اکبر اور ریحانه رسول خدا (صلی الله علیه وآله)، سید جوانان اهل جنت اور اصحاب کساء میں سے هیں، آپ شیعه و سنی مفسرین و محدثین کے اتفاق کی بنا پر اهل بیت علیهم السلام اورآیه تطهیر و آیه مباهله کے مصداق هیں که خداوندعالم نے ان کی پاکیزگی کی خبر دی هے، اور پیغمبر اکرم (ص) نے ان کے اور ان کے برادر (امام حسین ع) کے بارے میں فرمایا: “حسن و حسین دونوں امام هین چاهے وه کهڑے هوں یا بیٹھے هوں” یعنی حسن و حسین علیهما السلام هر حال میں امام اور پیشوا هیں، چاهے کهڑے هوں (یعنی قیام کریں، یا بیٹھ جائیں، (اور صلح کریں)
حمد بن حسن عسکریؑ (ولادت 255ھ)، حضرت امام مہدی علیہ السلام، امام زمانہ اور حجت بن الحسن کے نام سے مشہور شیعوں کے بارہویں اور آخری امام ہیں۔ آپؑ کی امامت 260ھ کو امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد شروع ہوئی جو آپ کے ظہور کے بعد تک جاری رہے گی۔ شیعوں کے مطابق آپ وہی مہدی موعود ہیں جو ایک طولانی عرصے تک غیبت میں رہنے کے بعد ظہور کریں گے۔
شروع میں عاشورا ایک شجاعت و دلاوری کی صورت میں ظاہر ہوا تھا ، پھراشک و آہ کے ساتھ ایک غم انگیز حادثہ میں تبدیل ہوگیا اور آخری صدیوں میں اس نے پھر اپنے پہلے چہرہ کو حاصل کرلیا یعنی آہ و آنسوئوں کے سیلاب کے درمیان مکتب حسینی کے عاشقوں نے اپنی شجاعت و دلیری کو آشکار کردیا اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد میں انقلاب برپا کردیا ۔
آیت الله العظمی ناصر مکارم شیرازی اور حوزهای علمیه کی جانب سے سردار رشید اسلام شهید الحاج قاسم سلیمانی و شهید ابو مهدی مهندس کی مجلس چهلم شهر مقدس قم کے حوزه علمیه امام کاظم (علیه السلام) کے رسول اعظم هال میں منعقد هوئی.
یقینا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کے زمین پر قدم رکھتے ہی اخلاقی بحثوں کا آغاز ہوگیا تھا (١) لہذا خدا وندعالم نے حضرت آدم کو پیدا کرنے اور جنت میں جگہ دینے کے بعد ان کو اخلاقی مسائل اور اس کے احکامات سکھا دئیے تھے (٢) اور حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی اولاد کو ان تمام اخلاقی احکام سے آشنا کیا ۔
حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے اپنے بھتیجے امام سجاد علیہ السلام کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : مستقبل میں تمہارے والد حسین علیہ السلام کی قبر پر ایک ایسا پرچم لہرایا جائے گا جو کبھی پُرانا نہیں ہوگا اور زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گااور کفر کے علمبردار اس کو مٹانے کی جس قدر کوشش کریں گے اسی قدر روز بروز اس کی عظمت میں اضافہ ہوگا ۔
ایک جملہ میں یہ کہنا ضروری ہے کہ تکفیر کا نظریہ ، عقل ، نص اور قرآن کریم کے برخلاف ہے اور اسلامی بزرگ علماء کے لئے ضروری ہے کہ اس تکفیر کی جڑوں کو صحیح منطق کے ذریعہ قطع کریں اور جوانوں کو ان کی طرف مجذوب ہونے سے روکیں ۔