موجودہ دنیا کی سب سے بڑی مصیبت رشوت خوری ہے جو اقوام متحدہ تک پہنچ گئی ہے ۔

موجودہ دنیا کی سب سے بڑی مصیبت رشوت خوری ہے جو اقوام متحدہ تک پہنچ گئی ہے ۔


موجودہ دنیا کی سب سے بڑی مصیبت رشوت خوری ہے جو اقوام متحدہ تک پہنچ گئی ہے ۔‌

افسوس کی بات ہے کہ آج دنیا پر مال کی حکومت ہے ، سعودی عرب کے پاس جو مال ہے اس نے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹریری کو بھی اپنے تیل کے ڈالروں سے مالا مال کررکھا ہے ۔

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے مشہد ، تہران اور شہر ارومیہ کے بعض طلاب کے درمیان علم حاصل کرنے اور تبلیغ میں کامیاب ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا ایک معجزہ''علم'' اور ''عالم'' کی حمایت ہے کیونکہ جس وقت آنحضرت (ص) نے ظہور کیا تو جاہلیت کا زمانہ تھا اور دنیا جہالت سے بھری ہوئی تھی ۔

انہوں نے مزید فرمایا : ان تمام باتوں کے باوجود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی آسمانی کتاب قرآن کریم نے لوگوں کے درمیان علم کی اس قدر باتیں بیان کیں جو اپنے معمول سے خارج تھیں ، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ اس جاہلی معاشرہ کا نتیجہ علم کی اس قدر حمایت نہیں ہوسکتا تھا ۔

معظم لہ نے علم کے سرچشمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : علم کی حمایت کا سرچشمہ حضرت آدم تک پہنچتا ہے ، خداوندعالم نے حضرت آدم کو ''اسمائ'' سے عالم کیا اور اسی علم کی وجہ سے فرشتوں کو حکم دیا کہ انہیں سجدہ کریں ، مسجود ملائکہ ہونے سے متعلق حضرت آدم کا یہ افتخار علم کی وجہ سے تھا ۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سب سے پہلی جو چیز نازل ہوئی وہ علم اور پڑھنا تھا ، فرمایا : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر سب سے پہلی وحی میں پڑھنے کی تاکید کی گئی ۔ یہ بات بہت اہم ہے جسے ہمیں درک کرنا چاہئے کہ جاہلیت کے تاریک زمانہ میں اسلام نے علم سے کس حد تک دفاع کیا ہے اور قرآن کریم میں ٧٠ آیات غور وفکر اور تدبر و تفکر کے متعلق نازل ہوی ہیں اور یہ تکرار ایسا نہیں ہے جس کو آسانی سے نظر انداز کردیا جائے ۔

دنیا پر مال کی حکومت

معظم لہ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد آپ کے برحق جانشین حضرت علی علیہ السلام نے بھی اس بات پر بہت تاکید فرمائی ، نہج البلاغہ میں غور وفکر کریںکہ اس میں بھی علم سے متعلق بہت زیادہ روایات ہیں ، کلمات قصار میں آپ نے علم کو مال پر برتری اور ترجیح دی ہے ، جبکہ موجودہ زمانہ میں مال کو علم پر برتری دی جارہی ہے ۔

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے موجودہ معاشرہ کی اصلی مشکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : آج تمام لوگ مال کے پیچھے ہیں اور علم کو بھی مال کا خادم سمجھتے ہیں ، حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : علم کو مال پر پانچ فضیلتیں ہیں : اول :  علم انسان کی حفاظت کرتا ہے ، لیکن مال کی حفاظت کرنا پڑتی ہے ۔ دوم : مال کو جب کسی کو دیا جاتا ہے تو وہ کم ہوجاتا ہے ، لیکن علم بخشنے اور خرچ کرنے سے زیادہ ہوتا ہے ۔

معظم لہ نے فرمایا :  علم اور مال کا تیسرا فرق یہ ہے کہ جو شخص مال اور ثروت کی وجہ سے کسی کے پیچھے جاتا ہے وہ مال کے ختم ہونے کے بعد اس سے جدا ہوجاتا ہے ، لیکن علم کی وجہ سے لوگ ہمیشہ اس کے پیچھے رہتے ہیں ۔  چوتھا فرق یہ ہے کہ جو مال کے طالب ہیں وہ اپنی زندگی ہی میں مرچکے ہیں ، لیکن علماء مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور ان کی نشانیاں باقی رہتی ہیں ، جیسے شیخ انصاری اور شیخ طوسی وغیرہ۔

علم اور مال کے پانچویں فرق کو انہوں نے اس طرح بیان کیا :  عالم حاکم ہے اور مال محکوم ہے یعنی مال کو انسان منظم و مینجمنٹ کرتا ہے ، لیکن علم ایسا نہیں ہے ۔

موجودہ دنیا کی سب سے بڑی مصیبت دنیا پر ناجائز مال کی حکومت ہے

معظم لہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسلام ١٤٠٠ سال پہلے سے علم کو اہمیت دے رہا ہے ، فرمایا : افسوس کی بات ہے کہ آج دنیا پر مال کی حکومت ہے ، سعودی عرب کے پاس جو مال ہے اس نے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹریری کو بھی اپنے تیل کے ڈالروں سے مالا مال کررکھا ہے تاکہ وہ سعودی عرب کو بچوں کو قتل کرنے کی لیسٹ سے خارج کردے اور انہوں نے سعودی عرب کے نام کو فورا حذف کردیا ۔

انہوں نے مزید فرمایا : یہاں سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ اقوام متحدہ کا جنرل سکریٹری بھی ان کی رشوت کھاتا ہے ، دوسری جگہ بھی امریکہ کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ١١ ستمبر کو امریکہ کی دونوں عمارتوں کو خراب کرنے میں سعودی عرب کا ہاتھ تھا ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس کا نام حذف کردیا ہے ۔ آج کے زمانہ میں جو جنگ و جدال اور قتل و غارت ہو رہا ہے وہ سب مال کی حکومت کی وجہ سے ہے ، اگر مطلق طور پر علم کی حکومت ہوتی تو یہ واقعات سامنے نہ آتے۔

آج دنیا کو اسلامی معارف کی ضرورت بہت زیادہ ہے

معظم لہ نے طالب علموں کو اہل بیت علیہم السلام کے راستہ پر گامزن ہونے کی توفیق حاصل ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : بہت سے لوگوں کی یہ آرزو ہے کہ وہ ایسے راستہ پر گامزن ہوں ، لیکن وہ اس راستہ کو اختیار نہیں کرپاتے ، خداوندعالم نے تم پر اپنا لطف کیا ہے تاکہ تم اس راستہ پر چلو اور تمہارا نام امام صادق اور امام باقر علیہما السلام کے شاگردوں میں قرار پائے ۔

انہوں نے مزید فرمایا : ہم اس زمانہ میں زندگی بسر کررہے ہیں جہاں پہلے زمانوں سے زیادہ اسلامی علوم حاصل کرنے کی ضرورت ہے ، گزشتہ زمانہ میں شبہات اور اعتراضات کم تھے اور اگر تھے بھی تو وہ کسی خاص علاقہ میں محدود رہتے تھے ، اب شبہات زیادہ ہوگئے ہیں اور جدید میڈیا کے ذریعہ مشرق سے مغرب میں اور مغرب سے مشرق میں منتشر ہورہے ہیں ، ایسے ماحول میں ہماری ذمہ داری بہت زیادہ اور اہم ہے ۔

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ طلاب کو موجودہ زمانہ کی ضرورتوں سے آگاہ ہونا چاہئے ، فرمایا :  طلاب کیلئے ضروری ہے کہ وہ موجودہ ضرورتوں کو سیکھیں ، حوزوی دروس کو اچھی طرح پڑھیں اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے مسائل کو بھی سیکھیں ۔ طلاب کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسئلہ تکفیر کی جائے پیدائش سعودی عرب اور محمد بن عبدالوہاب کی تعلیمات ہیں ۔ اسی طرح طلاب کو معلوم ہونا چاہئے کہ عرفان کاذب کہاں سے آیا ہے اور ان کے جوابات دینے کے لئے آمادہ رہنا چاہئے ۔

انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ طالب علم کے کامیاب ہونے کے کیا اسباب ہیں ، فرمایا :  طلاب کے کامیاب ہونے کے تین اسباب ہیں :  اول : منظم رہنا ، مطالعہ، مباحثہ اور زندگی کے تمام امور میں نظم و ضبط سے کام لینا ۔  دوم :  زیادہ سے زیادہ محنت کرنا ، طالب علم کو تھکنا نہیں چاہئے اور ہمیشہ زحمت کرتا رہے ۔  سوم :  خلوص نیت ہے ، جس قدر بھی نیت خالص اور صحیح ہوگی ، کامیابی بھی اسی قدر حاصل ہوگی ۔ جان لو اور آگاہ ہوجائو کہ مخلص لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں ۔

captcha