معظم لہ کی رو سے اسلامی امت میں تکفیری نظریہ کی تحقیق

معظم لہ کی رو سے اسلامی امت میں تکفیری نظریہ کی تحقیق


ایک جملہ میں یہ کہنا ضروری ہے کہ تکفیر کا نظریہ ، عقل ، نص اور قرآن کریم کے برخلاف ہے اور اسلامی بزرگ علماء کے لئے ضروری ہے کہ اس تکفیر کی جڑوں کو صحیح منطق کے ذریعہ قطع کریں اور جوانوں کو ان کی طرف مجذوب ہونے سے روکیں ۔‌

ہم ایسے زمانہ میںزندگی بسر کر رہے ہیں جہاں متعصب اور شدت پسند وہابیت اپنے علاوہ تمام مسلمانوں پر کفر و شرک کا فتوی لگارہی ہے (١) ایسا غلط نظریہ ہے جو جہل ، نادانی اور تکفیری تعلیمات کے غلط نظریوں سے وجود میں آیا ہے ،توحید، شرک، شفاعت ا ور عبادت کے متعلق وہابیوں کے نظریات بہت ہی غلط ہیں ، جن کی وجہ سے بہت زیادہ خونریزی ہوئی ہے (٢) ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تکفیری نظریات میں تشدد، سختی اور ان کی باتوں اور عمل میں تضاد پایا جاتا ہے (٣) ۔ لہذا تکفیری نظریات فقط منطق اور عقل ہی سے دور نہیں ہیں بلکہ انہوں نے دنیائے اسلام میں ایسا تشدد پیدا کردیا جس سے پوری دنیا بیزار ہے اور انہوں نے دنیا میں اسلام کی بہت غلط تصویر پیش کی ہے جس کے آثار اور نقصانات کو دور کرنے کیلئے بہت زیادہ محنت اورکوشش کرنا پڑے گی (٤) ۔

مفہوم تکفیر کی حقیقت

پہلے مرحلہ میں کہنا چاہئے کہ تکفیر (کسی کو کافر سمجھنا) ایک شرعی حکم ہے جس کا معیار و ملاک ، خدا وندعالم اور رسول خدا کی طرف سے معین ہوتا ہے (٥) ۔ اس بناء پر کفر کا حکم فقط خدا اور اس کے رسول کی طرف سے صادر ہوتا ہے (٦) ۔ لہذا جب تک کتاب اور سنت سے کسی کے کفر پر واضح دلیل موجود نہ ہو اس وقت تک ہمارے لئے کسی پر کفر کا حکم لگانا جائز نہیں ہے اور فقط احتمال و گمان کافی نہیں ہے کیونکہ اس حکم پر بہت اہم احکام وارد ہوتے ہیں (٧) اس وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے سب لوگوں کو ایسے شخص پر کفر کا حکم لگانے کو منع کیا ہے جو حقیقت میں کافر نہیں ہے (٨) ۔

فتنہ تکفیر سے علمی مقابلہ کی ضرورت

یقینا اس سلسلہ میں یہ اہم سوال پیش کرنا چاہئے کہ یہ تکفیر کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا ہے ، جس سے دنیائے اسلام میں بہت زیادہ حرج ومرج پیش آرہا ہے ؟ ! (٩) ۔ یقینا فتنہ تکفیر کی جائے پیدائش ، اس کے وسیع طور پر پھیلنے کے علل و اسباب ، اس سے مقابلہ کرنے کے طریقے اور اس کو کامل طور پر نابود کرنے کے راستے کیا ہیں ؟ بیشک ان تمام باتوں میں غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ فقط سیاسی اور فوجی پروگرام اس فتنہ کو دور کرنے کیلئے کافی نہیں ہیں (١٠) ۔

تکفیری فتنہ کا قرآنی تعلیمات سے بے بہرہ ہونا

تکفیری فتنہ کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ تکفیریوں کا خطرہ انحرافی مکتب اور غلط نظریات کا نتیجہ ہے (١١) ۔ جس کو سب سے زیادہ داعش اور اس کے جیسے دہشت گرد گروہوں میں تلاش کرنا چاہئے (١٢) لیکن اس خطرناک گروہوں کے وجود میں آنے کی سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ یہ کتاب و سنت سے آشنا نہیں ہیں ، یہ لوگ توحید، شفاعت، توسل اور بدعت وغیرہ کے سلسلہ میں قرآن کریم کی آیات کو غلط طریقہ سے سمجھتے ہیں اور ان کا غلط مفہوم نکالنا ہی تکفیری نظریات کے رائج ہونے کاسبب بنا ہے (١٣) ۔

شرک او رایمان کی تفسیرمیں تکفیریوں کی بہت بڑی غلطی

تکفیری فتنہ میں سب سے اہم مسائل ، کفر اور ا یمان سے متعلق ہیں ، تکفیریوں نے ایسے امور کی حقیقت کو سمجھنے میں جو ا نسان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتے ہیں ، بہت بڑی غلطی کی ہے ، یہاں تک کہ جو بھی ان کا مخالف ہے اس کو وہ کافر کہتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ وہ اپنے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو کافر شمار کرتے ہیں (١٤) ۔

یہ لوگ تمام مسلمانوں کو کافر کہنے کیلئے قرآن کریم کی بعض آیات سے استنادکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو شخص بھی یا علی (علیہ السلام) اور یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کہتا ہے اور ان سے شفاعت طلب کرتا ہے وہ مشرک ہے ، اس بناء پر اس کا خون، عزت اوراس کی ناموس مباح ہے اور تکفیری کو ماننے والے موجودہ لوگوں میں ا ور صدر اسلام کی جاہلیت کے لوگوں میں کسی فرق کے قائل نہیں ہیں، بلکہ موجودہ لوگوں کو زمانہ جاہلیت کے مشرکوں سے بدتر سمجھتے ہیں ، جبکہ قرآنی آیات میں شرک و ایمان کا مفہوم واضح ہے (١٥) ۔

اسی طرح اس مسئلہ کی وضاحت میں ان معجزوں کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جو خداوندعالم نے حضرت عیسی (علیہ السلام) کو عطا کئے ہیں ، جیسے : مادر زادہ اندھے کو شفا دینا، مردوں کوزندہ کرنا، پرندوں کے مشابہ پرندے بنانا ، ان کے اندر روح ڈالنا اور خدا کے حکم سے غیب کے متعلق خبر دینا وغیرہ ۔ کیا حقیقت میں یہ شرک ہے ؟ اور عیسی مشرک تھے ؟ (١٦) ۔

آثار رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے تبرک حاصل کرنے کے مفہوم کا شرک سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ بہت سی روایات اور علماء کے اقوال میں پیغمبر اکرم (ص) کے ہاتھ کو بوسہ دینا،جس برتن سے آنحضرت (ص) پانی پیتے تھے اس سے تبرک حاصل کرنا، آنحضرت کے گھر سے تبرک، ان کے منبر اور قبر سے تبرک، اسی طرح گزشتہ انبیاء اور صالحین کے آثار سے تبرک حاصل کرنا بیان ہوا ہے اور اہل سنت کی مشہور اور معتبر کتابوں میں یہ تمام باتیں بیان ہوئی ہیں جس کے بعد کسی طرح کا کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہ جاتا (١٧) ۔

تکفیری اور قرآن کے ایک خاص حصہ کو سمجھنا

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ تکفیری نظریات میں قرآن کریم کی بعض آیات سے ایمان کو مختلف طریقہ سے سمجھا ہے اور دوسری آیات جو ان کے نظریہ کے برخلاف ہیں ان کی توجیہ نہیں کرتے ہیںاور دنیائے اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے (١٨) ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ تکفیرکو ماننے والوں نے قرآن کریم کی فقط ان آیات کا انتخاب کیا ہے جو ان کے نظریات کے موافق ہیں اور دوسری آیات جو ان کے انہی نظریات کے برخلاف ہیں ، ان کی توجیہ بیان کرتے ہیں ، جبکہ ہمیں تمام آیات الہی پر ایمان رکھنا چاہئے اور ان پر عمل کرنا چاہئے (١٩) ۔

مکتب تکفیر کی افسوس ناک خصوصیت اپنے آپ کو مفسر قرآن سمجھنا ہے

یقینا استبداد رائے خود کو مفسر سمجھا اور سب کو مفسر سمجھنا تکفیری تھیوری میں بہت ہی واضح انحراف ہے ، یعنی تکفیری عملی طور پر کتاب و سنت کو درک کرنے کا انحصار فقط اپنے اندر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شرک، ایمان،توسل اور بدعت کا مفہوم وہی ہے جو ہم بیان کرتے ہیں اور تمام مسلمان ہماری اطاعت کریں اور جو بھی انکار کرے گا وہ قتل کا مستحق ہوگا ،یہ لوگ اپنے نظریہ کے مخالفین کو یہاں تک کہ علمائے سلف کو بھی کافر سمجھتے ہیں (٢٠) ۔

لہذا ہم بہت ہی درد و رنج کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ انہوں نے کتاب و سنت کو درک نہیں کیا ہے کیونکہ انہوں نے اسلام کے سچے علماء سے علم حاصل نہیں کیا ہے اور یہ قرآن وسنت نبوی کی غلط طرح سے تفسیر کرتے ہیں اسی وجہ سے یہ اسلامی تمام علوم کو حاصل نہیں کرسکتے بلکہ ایک کلمہ میں یہ کہنا چاہئے : مکتب تکفیر ، عقل، نص اور قرآن کے برخلاف ہے (٢١) ۔

آخری بات

اس مقالہ کے اختتام پر یہ کہنا ضروری ہے کہ تکفیر کے باطل عقیدہ کے برخلاف اسلام میں مسلمانوں کا مال، عزت اور ناموس محترم ہے اور کسی کو بھی ان کے حریم میں تجاوز کرنے کی اجازت نہیں ہے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حجة الوداع کے خطبہ میں آخری باتیں جو ارشاد فرمائی تھیں وہ یہ تھی : تم سب کا خون، مال اور ناموس ایک دوسرے کے لئے محترم ہے، جس طرح روز عید قربان کا احترام ہے اور جس طرح حرام مہینوں اور سرزمین مقدس (مکہ) کا احترام ہے(٢٢) ۔

لہذا اس شعار(نعرہ ) کے ساتھ ''لا التکفیر'' و ''لا الارہاب'' نہ تکفیر کرنا جائز ہے اور نہ کسی کوقتل کرنا جائز ہے اور تکفیری گروہوں کے فتنوں کے مقابلہ میں موجودہ بحران کو ختم کرنے کی ضرورت ہے (٢٣) ۔

اس بناء پر تکفیری بنیادوں کو علم کے ذریعہ ختم کردینا چاہئے (٢٤) اسی طرح دوسری طرف عراق، شام اور یمن میں دہشت گردوں کے برخلاف میدان جنگ میں لڑنے والے مجاہدوں سے ہم کہتے ہیں : تم فوجی محاذ پر اور ہم علمی اور فکری محاذ پر متحد ہوگئے ہیں تاکہ تکفیریت کی بنیادوں کو ختم کرسکیں (٢٥) ۔

اس بناء پر علمائے اسلامی اس تکفیر کے بنیادوں کو صحیح منطق کے ذریعہ منقطع کردیںاور جوانوں کو ان کی طرف سے مجذوب ہونے کے لئے روکیں (٢٦) ۔ ''مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات اور علمائے اسلام کی ذمہ داریوں''سے متعلق کانفرنس کا انعقاد تکفیریوں سے مقابلہ کرنے کیلئے بہترین طریقہ ثابت ہوسکتا ہے (٢٧) ۔

تنظیم و ترتیب اور تحقیق :  آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی طرف سے اہل قلم کی ایک جماعت

دفتر حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ)  www.makarem.ir

١۔  وہابیت بر سر دو راہی ، صفحہ ٩ ۔

٢ ۔  مشکات ہدایت ، صفحہ ١٩٨ ۔

٣ ۔  وہابیت بر سر دو راہی ، صفحہ ٩ ۔

٤ ۔  وہابیت بر سر دو راہی ، صفحہ ٩ ۔

٥۔  وہابیت بر سر دو راہی ، صفحہ ١٧٤۔

٦ ۔  وہابیت بر سر دو راہی ، صفحہ ١٧٤ ۔

٧ ۔  وہابیت بر سر دو راہی ، صفحہ ١٧٥ ۔

٨ ۔  وہابیت بر سر دو راہی ، صفحہ ١٧٥ ۔

٩ ۔  وہابیت بر سر دو راہی ، صفحہ ١٤٨ ۔

١٠ ۔  ''علمائے اسلام کی نظر میں مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات'' کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1393/09/03) ۔

١١ ۔  اردن کے وزیر اوقاف سے ملاقات کے دوران حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1394/10/03) ۔

١٢ ۔  ''علمائے اسلام کی نظر میں مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات'' کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1393/09/02) ۔

١٣ ۔  ''علمائے اسلام کی نظر میں مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات'' کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس کی افتتاحیہ تقریر میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان  ۔

١٤ ۔  وہابیت بر سر دو راہی ، صفحہ ١٣١ ۔

١٥ ۔  ''علمائے اسلام کی نظر میں مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات'' کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس کی افتتاحیہ تقریر میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1393/09/02) ۔

١٦ ۔  ''علمائے اسلام کی نظر میں مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات'' کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس کی افتتاحیہ تقریر میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1393/09/02) ۔

١٧ ۔  وہابیت بر سر دو راہی ، صفحہ ١٣٢ ۔

١٨ ۔  ''علمائے اسلام کی نظر میں مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات'' کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1393/09/02) ۔

١٩ ۔  ''علمائے اسلام کی نظر میں مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات'' کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1393/09/02.) ۔

٢٠ ۔ ''علمائے اسلام کی نظر میں مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات'' کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1393/09/02) ۔

٢١ ۔  فقہ کے درس خارج میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1394/0/26) ۔

٢٢ ۔  وہابیت بر سر دوراہی ، صفحہ ١٧٧ ۔

٢٣ ۔  وہابیت بر سر دو راہی ، صفحہ ١٤٨ ۔

٢٤ ۔  دبیر کل مقاومت اسلامی نجباء شیخ اکرم الکعبی سے ملاقات کے دوران حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1394/10/16) ۔

٢٥ ۔  دبیر کل مقاومت اسلامی نجباء شیخ اکرم الکعبی سے ملاقات کے دوران حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1394/10/16) ۔

٢٦ ۔  ''علمائے اسلام کی نظر میں مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات'' کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس کی افتتاحیہ تقریر میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1393/09/02) ۔

٢٧ ۔  ''علمائے اسلام کی نظر میں مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات'' کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس کی افتتاحیہ تقریر میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (1393/09/02.) ۔

captcha