حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اردن کے وزیر اوقاف سے ملاقات کے دوران یہ بیان کرتے ہوئے کہ پوری دنیا کو دو اہم اخطرے لاحق ہیں ، فرمایا : پہلا خطرہ تکفیری ہیں جو پوری دنیا اور تمام مسلمانوں کو دھمکی دے رہے ہیں ، آج تکفیری انسانوں کو قتل کررہے ہیں اور اسلامی ممالک کو خراب کرہے ہیں اور ان کی وجہ سے اسلام کے دشمن خوشیاں منا رہے ہیں ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ کوئی بھی ملک یہاں تک کہ سعودی عرب بھی جو کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق تکفیر کا گہوراہ ہے ، ان کے خطرات سے محفوظ نہیں رہے گا ، فرمایا : دوسرا خطرہ جو تمام مسلمانوں کو لاحق ہے وہ فلسطین اور مسجد الاقصی پر قابض صہیونیزم ہے جو کہ مسلمانوں کا قدیمی اور اہم دشمن شمار ہوتا ہے ۔
معظم لہ نے فلسطین اور مسجد الاقصی پر قابض صہیونست کے جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : مسجد الاقصی کے لئے جو مشکلات وجود میں آئی ہیں وہ تمام مسلمانوں اور علمائے اسلام کے لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں ۔
انہوں نے اپنے بیان کے دوسرے حصہ میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ تکفیریوں کو فقط فوجی طاقت سے دور نہیں کیا جاسکتا ، فرمایا : تکفیریوں کا خطرہ انحرافی مکتب اور تفکر سے وجود میں آیا ہے اور علمائے اسلام کو چاہئے کہ وہ اس تفکر کی اصل و اساس کو ختم کردیں اور سب سے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ آل سعود کی کتابوں اور نصاب تعلیم میں تکفیری نظریوں کو پڑھایا جاتا ہے اور انہوں نے تکفیریوں کے خلاف تیس ممالک کا ایک گروہ تشکیل دیا ہے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ آل سعود کو بھی تکفیریوں کے خطرہ کا علم ہوگیا ہے ، فرمایا : آج مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجادکرنا دشمنوں کی سازش ہے اور ان کی کوشش یہ ہے کہ شیعوں کو اہل سنت سے اور اہل سنت کو شیعوں سے دور رکھا جائے اور ان میں خوف و وحشت ایجاد کی جائے ۔
انہوں نے مزید فرمایا : ایران کے شمال و جنوب اور مشرق و مغرب میں اہل سنت زندگی بسر کرتے ہیں اورہم ان کے ساتھ بہت اچھی زندگی بسر کررہے ہیں ، یہاں تک کہ افغانستان میں شیعہ اور اہل سنت کی مشترک حکومت ہے ۔