ماہ مبارک رمضان میں شیخ الازہر جناب ڈاکٹر احمد طیب نے شیعہ اور اہل سنت کے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو کی جو میڈیا پر نشر ہوئی اورانہوں نے پیشنہاد دی کہ علمائے شیعہ اور اہل سنت ایک دوسرے کے پاس بیٹھیں اور اختلافی مسائل کے بارے میں گفتگو کریں اور دونوں مذہب کے درمیان صحیح راستہ کے انتخاب کریں ۔
اور انہوں نے متعدد بار اپنی اس دعوت کو دہرایا جو میڈیا سے نشر ہوئی ، لہذا حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے بھی ایک خط میں (اس بات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہ انہوں نے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اتحاد کے راستہ پر گفتگو کی) بہت اہم اور بنیادی مطالب ان کی خدمت میں ارسال کئے اور اب اس خط کے جواب کا انتظار کررہے ہیں ۔
لیکن اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ شیخ الازہر کی گفتگو میڈیا پر بہت زور و شور سے نشر ہوئی ،لہذا حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے بھی فرمایا : ہم بھی مجبورا اس خصوصی خط کو میڈیا پر نشر کردیں تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ ہم بھی اس پیشنہاد کے طرفدار ہیں اور اس سے پہلے بھی ہم نے اس بات کااظہار کیا تھا ۔
معظم لہ نے مزید فرمایا : لیکن ہمارا تصور یہ ہے کہ شروع میں اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ دینی مراجع اور شیخ الازہر ایک جگہ بیٹھیں بلکہ ابتداء میں بزرگ علماء جو مختلف سطوح سے تعلق رکھتے ہیں ان جلسوں میں شرکت کریں اور بزرگ علماء کی شرکت کا راستہ فراہم کریں ، ہمیں امید ہے کہ شیخ الازہر جناب ڈاکٹر طیب ہماری اس پیشنہاد کا مثبت جواب دیں گے تاکہ اس کے مقدمات فراہم کئے جاسکیں ۔
معظم لہ نے شیخ الازہر کو جو خط لکھا تھا اس کا اردو متن مندرجہ ذیل ہے :
باسمہ تعالی
شیخ الازہر جناب ڈاکٹر احمد الطیب صاحب
سلام علیکم و رحمۃ ا ۔۔۔
سب سے پہلے آپ کا اس بات پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس سال ماہ مبارک رمضان میں ’’حدیث شیخ الازہر‘‘ کے عنوان سے امامت اور صحابہ کے موضوع پر شیعہ سنی اختلافات کے بارے میں ٹیلیویزن پر مسلسل گفتگو کی۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے آپ کی تلاش و کوشش قابل قدر ہے ۔
ہم آپ کی بعض باتوں پر بہت خوش ہیں جو آپ نے ان پروگراموں میں بیان کیں جیسے’’ شیعہ سنی، امت مسلمہ کے دو پر ہیں اور اس وقت جو شیعوں اور سنیوں کے درمیان ہو رہا ہے یہ مذہب کے نام پر مسلمانوں کو نابود کرنے کی سازش ہے‘‘، ’’ جب تک شیعہ و سنی شہادتین پر ایمان رکھتے ہوں تو الازہر شیعہ و سنی کے درمیان کسی طرح کے فرق کی قائل نہیں ہے‘‘۔ یہ آپ کی وہ باتیں ہیں جو فکری اور اعتقادی میدان میں الازہر کے اعتدال پسندانہ رویہ کی عکاسی کرتی ہیں ۔ لیکن اجازت دیں آپ کے ان پروگراموں میں بیان کی گئیں کچھ دیگر باتوں کی طرف بھی اشارہ کریں:
پہلی بات یہ کہ صحابہ کو گالیاں دینے اور لعن طعن کرنے کا مسئلہ جو آپ نے بعض شیعہ افاضل کی طرف منسوب کیا اس کے بارے میں کہا جائے کہ تمام شیعہ مراجع اس کام ( صحابہ کو گالیاں دینا) سے طلب برائت کرتے ہیں ۔ صرف بعض شیعہ عوام جو قابل توجہ بھی نہیں ہیں اس طرح کے کاموں میں سبقت اختیار کرتے ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ شیعہ عقائد کے بارے میں جو باتیں آپ نے ان پروگراموں میں بیان کیں وہ قابل بحث و تنقید ہیں ۔
ہم اس احترام کے ساتھ جو آپ کی نسبت قائل ہیں یہ کہنا چاہیں گے کہ اس طرح کی باتیں میڈیا کے راستے سے بیان کرنا شیعوں اور سنیوں کے درمیان اختلافات کو مزید ہوا دینے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں رکھتیں اور بہت سارے اسلام دشمن ان باتوں کو اپنے مقاصد کے لیے ہھتکنڈہ بنانے کی کوشش کریں گے ۔ اے کاش کہ یہ مسائل، علمی اور خصوصی جلسوں اور شیعہ سنی علماء کی موجودگی میں بیان کئے جاتے نہ میڈیا پر ۔
اس بناء پر، ہم یہاں پر ایک تجویز پیش کرتے ہیں کہ شیعہ اور سنی دونوں مذاہب کے بزرگ علماء کی موجودگی میں ایک علمی کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ اس میں اسلامی اتحاد کی راہ میں پائی جانے والی اہم ترین رکاوٹوں کی چھان بین کی جائے اور دوسری جانب سے اسلامی وحدت کو تقویت پہنچانے والے اہم ترین اقدامات عمل میں لائے جائیں اور آخر میں اس علمی کانفرنس کے نتائج کو لازم الاجرا ہونے کے طور پر تمام امت مسلمہ کے لیے بیان کئے جائیں ۔
ہمیں امید ہے کہ آپ ہماری اس تجویر کو قبول کریں گے تاکہ شیعہ حضرات مجبور نہ ہوں آپ کی جانب سے شیعوں پر لگائے گئے اتہامات کا میڈیا اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے جواب دیں ۔
آخر میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی فضا قائم کرنے میں اپنی کوشش جاری رکھیں گے ۔ خداوند عالم سے آپ کے لیے مزید توفیقات کے خواہاں ہیں ۔
قم ــ ناصر مکارم شيرازی
29 رمضان المبارک