سعودی عرب میں ایک ہفتہ کے اندر شیعوں پر دو مرتبہ حملہ ہوا ، ایک شہر قطیب میں مسجد امام علی (علیہ السلام ) کے اندر اور دوسرا شہردمام میں مسجد امام حسین (علیہ السلام) کے باہر ، ان دونوں حملوں میں بہت زیادہ لوگ قتل اورزخمی ہوئے ۔
ہم اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ کیا سعودی حکومت ان اعمال سے متفق ہے ؟ اگر متفق نہیں ہے تو پھر ان جرائم پر روک کیوں نہیں لگاتی ؟ شیعہ مراکز اور مساجد کے اطراف میں حفاظتی گارڈ کیوں متعین نہیں کرتی؟یہ حکومت اپنے باشندوں سے بے توجہ کیوں ہے؟
کیا ان میں فقط ملک یمن کو ویران کرنے کی طاقت ہے ؟
کہتے ہیں : سعودی حکومت اور حجاز کے مفتیوں نے اس دہشت گردی کی مذمت کی ہے ، اگر ایسا ہے تو پھر انہوں نے اپنے تعیمی نصاب میں یہ کیوں لکھ رکھاہے : ''شیعہ کافر ہیں اور ان کی جان و مال مباح ہیں '' ؟
دوسری طرف خبروں میں بیان ہوا ہے کہ داعش نے ان جرائم کی ذمہ داری قبول کرلی ہے ، یہ شجاعت نہیں ہے یہ نہایت ذلت ، خباثت اور عجز و ناتوانی ہے کہ ایک مسجد میں یا مسجد کے اطراف میں نماز جمعہ پڑھتے ہوئے مسلمانوں پر خودکش حملہ کیا جائے اور مخفی طور پر ان کو خاک و خون میں غلطاں کیا جائے ۔
ان تمام باتوں کے علاوہ کیا اقوام متحدہ کا جرنل سکریٹری خواب غفلت میں ہے ؟ کیا حقوق بشر کا دعوی کرنے والے ادارے سوئے ہوئے ہیں ؟ اگر ایران میں ایک جاسوس کو پکڑ لیا جائے تو یہ سب فریادیں کرنے لگتے ہیں ، لیکن ان عظیم جرائم کے سامنے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں! ہم خدا سے دعا گو ہیں کہ اس علاقہ کے لوگوں کی ہمت و طاقت سے اس ظلم و ستم کی بنیادیں نیست و نابود ہوجائیں اور پوری دنیا کے مسلمان آپس میں بہت ہی امن و امان اور میل و محبت کے ساتھ زندگی بسر کریں ۔