حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے جمعہ کی شام کو ''چشمہ معرفت'' کے پروگرام میں جو کہ ایران کے پہلے چینل سے منتشر ہوا، آگاہ، ذمہ دار اور بہترین نسل کی تربیت میں میڈیا کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اجتماعی میڈیا یعنی مطبوعات، دور درشن، انٹرنٹ اور کتابوں کی جب تک اصلاح نہ ہو ، اس وقت تک معاشرہ خصوصا نسل جوان کی مشکل حل نہیں ہوگی ۔
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ایک حدیث کی تلاوت کی اور فرمایا : نبی اکرم اسلام فرماتے ہیں : '' علم زمین پر خداوندعالم کی امانت اور ودیعہ ہے اور علماء و دانشور اس کے امانتدار ہیں پس جو بھی اپنے علم پر عمل کرتا ہے اور جو کچھ اس نے سیکھا ہے اسے اجتماعی زندگی میں جاری کرتا ہے ، اس نے امانت کو ادا کردیا ہے اور جو اپنے علم پر عمل نہ کرے اس کا نام خیانت کرنے والوں کے رجسٹر میں لکھا جائے گا ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے وضاحت کی : اس بناء پر اسلامی تعلیمات کے مطابق ہم علم کو خدا کی امانت سمجھتے ہیں اور اس کی امانت کی حفاظت ضروری ہے ، اس علم کے مالک کو بھی عمل کرنا چاہئے اورمعاشرہ کے دوسرے لوگوں تک پہنچانا چاہئے اور خود بھی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے ۔
انہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس میں علماء اور دانشوروں کو تین گروہ میں تقسیم کیا گیا ہے ، فرمایا: پہلا گروہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی اپنے علم سے استفادہ کرتے ہیں اور لوگ بھی استفادہ کرتے ہیں ، یہ گروہ معاشرہ کے بارے میں ذمہ داری کا احساس کرتا ہے اور خداوندعالم بھی ان سے راضی رہتا ہے ۔
معظم لہ نے مزید فرمایا : دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو اپنے علم کو دوسروں کے اختیار میں دیدیتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے اور اپنے آپ کو تباہ اور فاسد کرلیتے ہیں ، یہ گروہ دوسرے لوگوں سے کہتا ہے کہ منشیات کا استعمال کرنا غلط ہے ، تنباکواور شراب وغیرہ سے بہت سی بیماریاں ہوتی ہیں ، لیکن خود عمل نہیں کرتے ہیں ۔
انہوں نے فرمایا : تیسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو اپنے علم سے خود تو استفادہ کرتے ہیں لیکن دوسروں کو نہیں سکھاتے اور اسلام کی نظر میں وہ بھی تباہ ہیں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس میں میڈیا کا کردار بہت موثر ہے ، فرمایا : جس میڈیا کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے یہ میڈیا شخصیتوں کو دگرگوں کرسکتی ہے ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہر معاشرہ میں ایک قیمتی نظام پایا جاتا ہے اور معاشرہ اس کو اہمیت بھی دیتا ہے ، فرمایا : زمانہ جاہلیت میں قیمتی نظام یہ تھا کہ لوگ ڈاکہ ڈالیں اور بہت زیادہ مال ودولت جمع کرلیں اور فقط اپنے قوم و قبیلہ کا ساتھ دیں اور دوسروں کی کوئی پروہ نہ کریں ، اس قیمتی نظام کا ثمرہ ابوسفیان، ابولہب اور ابوجہل تھے ۔
معظم لہ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے پہلے اقدامات میں جاہلیت کے قیمتی نظام کو تبدیل کیا ، فرمایا : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا قیمتی نظام ''ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم'' کی بنیاد پر قائم ہوا ، اس نظام میں مقام و منصب، ثروت، جاہ و جلال اور خاندان کی کوئی اہمیت نہیں تھی ، فقط تقوی کی قیمت کو مدنظر رکھا گیا ، اس قیمتی نظام کا ثمرہ سلمان، ابوذر، مقدام، عمار یاسر اور مالک اشتر ہوئے ۔
انہوں نے اس بات پر تاکیدکرتے ہوئے کہ میڈیا کو چاہئے کہ معاشرہ میں اخلاق اور انسانیت پر مبنی نظام کو رائج کرنے کی کوشش کرے ، فرمایا : اگر میڈیا بھی زیادہ سے زیادہ مال و ثروت جمع کرنے اور مقام و منصب حال کرنے کی فکر میں لگ جائے تو معاشرہ کا حال بہت خراب ہوجائے گا ، لیکن اگر اخلاق اور انسانیت پر نظام قائم ہوجائے اور خدمت خلق کو عبادت سمجھ لیں تو اس سے معاشرہ میں شائستہ اور تربیت یافتہ لوگ پیدا ہوں گے ۔