حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اربعین کی ثقافتی کمیٹی سے ملاقات کے دوران یہ بیان کرتے ہوئے کہ اربعین حسینی، اسلام اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کے لئے ایک عظیم اور اہم سرمایہ میں تبدیل ہوگئی ہے ، فرمایا : اس اجتماع کے لئے کوئی اعلان نہیں کرتا بلکہ یہ خود بخود اس طرح ایجاد ہوجاتا ہے لہذاہر لحاظ سے اس کی طرف توجہ کرنا چاہئے ۔
انہوں نے مزید فرمایا : یہ دو کروڑ کا بے نظیر مجمع مکتب اہل بیت علیہم السلام کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے ، چاہے دشمن کچھ بھی کرلیں یہ مکتب سب کے سامنے منتشر ہوتا رہے گا اور اسلام و مکتب اہل بیت علیہم السلام کے لئے جذابیت ایجاد کرتا رہے گا ، یہ عظیم پروگرام ہماری رگوں میں تازہ خون جاری کرتا رہے گا ، دشمن اور تکفیری منصوبوں کے دانت کھٹے کرتارہے گا ۔
معظم لہ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا : جس طرح اربعین کے عہدیدارن اس عظمی اجتماع کو اچھی طرح منعقد کرنے کے لئے منصوبے بناتے ہیں اسی طرح دشمن بھی اس اجتماع کو نقصان پہنچانے کے لئے پروگرام اور منصوبے بناتے ہیں، اس لحاظ سے ہمیں بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے ، جو چیز ، اہم ہے اس کا نقصان بھی اہم ہے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ نقصانات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے ، فرمایا : مندرجہ ذیل کاموں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے :
١۔ نماز، حجاب اور اس اجتماع میں مرد اور عورتوں کے الگ الگ رہنے کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ، کروڑوں کے اجتماع سے ممکن ہے نقصان بھی پہنچے جس کے لئے ہوشیار رہنا چاہئے ۔
٢ ۔ اربعین سے وسیع پیمانہ پر ثقافتی استفادہ کرنا چاہئے ۔
معظم لہ نے فرمایا : ہم نے آستان قدس رضوی اور آستان حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے عہدیداران سے بھی عرض کیا ہے کہ زیارت اپنی جگہ ہے لیکن زائرین کے کروڑوں کے اجتماع سے ثقافتی استفادہ کرنا ضروری ہے ۔
انہوں نے بیان کیا : جو لوگ ان پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں ،ان کی روح آمادہ رہتی ہے ، لہذا مبتلا بہ مسائل کو منتقل کرنے کی ضرورت ہے اور سب سے اہم مسئلہ اعتقاد کا ہے ، بعض ذاکرین اور خطباء ، غلو آمیز مسائل بیان نہ کریں اور دشمن کو بہانہ بنانے کا موقع نہ دیں ۔
معظم لہ نے مزید فرمایا : اسی طرح تقاریر اور نوحہ خوانی سے بھی نقصان نہیں ہونا چاہئے ، خطبوں اورذاکری میں بھی رعایت ضروری ہے ، اشعار اور نوحہ خوانی سے زیادہ نقصان ہوتا ہے ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ نماز اور واجب اعمال کے متعلق زیادہ سے زیادہ تاکید کرنا چاہئے ، فرمایا : زیارت اربعین بہت اچھی ہے لیکن مستحب امر ہے ، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ زائرین ، اربعین کی زیارت کے لئے جائیں اور نماز سے جو کہ دین کا ستون ہے ، غافل ہوجائیں ، اس سلسلہ میں بہت سے اشتباہات پائے جاتے ہیں جن کو تعلیم اور ثقافتی کاموں سے برطرف کرنا ضروری ہے ۔
٣۔ ایک دوسری بات جس کی طرف توجہ ضروری ہے وہ یہ قدرت مند افراد ، کمزور لوگوں کا خیال رکھیں ، اگر کوئی راستہ میں تھک جائے ، یا اس کو کوئی مشکل پیش آجائے تو اس کی مدد کرنا ضروری ہے ، زائرین کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہئے تاکہ خداوندعالم کا لطف و کرم ان کے شامل حال ہوسکے ۔
٤ ۔ معظم لہ نے اربعین کے پروگراموں میں اسراف سے بچنے کی ضرورت پر تاکیدکرتے ہوئے فرمایا : کھانا اسی قدر حاصل کرنا چاہئے جس قدر ضرورت ہے کیونکہ مستحب امور میںشرعی حلال اور حرام کی رعایت کرنا بہت ضروری ہے ۔
٥ ۔ انہوں نے مزید فرمایا : عراق میں داخل ہونے والے تمام مہمانوں کیلئے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ یہ پروگرام ، ملک عراق میں منعقد ہوتا ہے اور وہاں کی حکومت ان کا حق ہے ، وہ ہمارے میزبان ہیں اور میزبان کی تدابیر کو قبول کرنا چاہئے ، لہذا کسی کو بھی پاسپورٹ کے بغیر نہیں جانا چاہئے اور عراق میں داخل ہونے کے لئے ان پر دبائو نہیں بنانا چاہئے ، یہ کام بہت غلط ہے اور اگر کوئی بغیر پاسپورٹ کے زبردستی عراق میں داخل ہوتا ہے تووہ قصر نماز نہیں پڑھ سکتا کیونکہ ان کے سفر میں اشکال ہے ۔
٦ ۔ معظم لہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہم سے سوال کیا گیا ہے کہ اربعین سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد میں کمزوری کی حالت میں امام حسین علیہ السلام کے مرقد کی زیارت کے لئے جانا صحیح ہے ، فرمایا : ہم نے جواب میں عرض کیا ہے کہ ضرورت کی صورت میں کوئی حرج نہیں ہے ، ان کی زیارت بھی قبول ہے لیکن اپنی زیارت کو زیادہ لمبی نہ کریں ، بلکہ جلدی سے واپس پلٹیں اور دوسروں کو زیارت کرنے کا موقع دیں ،لوگ یہ بات جو کہتے ہیں کہ ہم نے امام حسین علیہ السلام کے مرقد کے پاس کئی روز تک رہنے کی نذر کی ہے ، صحیح نہیں ہے ۔
٧۔ انہوں نے بیان کیا : حرم میں داخل ہوتے اور نکلتے ہوئے نظم کی رعایت کرنا چاہئے کیونکہ خدانخواستہ کوئی تمہارے پیروں کے نیچے نہ کچل جائے اگر ایسا ہوا تو یہ بہت ہی بے عزتی کا سبب ہوگا ۔ الحمدللہ گزشتہ برسوں میں بہت ہی نظم و ضبط سے کام لیا گیا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دو کروڑ زائرین حسینی کو حج بیت اللہ الحرام سے زیادہ بہتر طریقہ سے مینجمنٹ کیا جاسکتا ہے جہاں پر فقط تیس لاکھ حاجی ہوتے ہیں ۔اربعین کی کارکردگی کے لئے جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس سے یہ امید پائی جاتی ہے کہ تمام کام بہت ہی نظم و ضبط سے انجام پائیں گے ۔
٨ ۔ انہوں نے فرمایا : زائرین عزیز ! ایسے نعرے لگانے سے پرہیز کریں جن سے دوسرے مذاہب کی توہین ہوتی ہو ، جن کا وہ لوگ احترام کرتے ہیں ، ان کا نام برائی سے نہیں لینا چاہئے ، کیونکہ اربعین کے عظیم اجتماع میں اہل سنت بھی شرکت کرتے ہیں ۔
٩ ۔ انہوں نے مزید فرمایا : مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ اس سال گزشتہ برسوں سے زیادہ اچھے طریقہ سے یہ پروگرام منعقد ہوگا اور تمام زائرین اپنی حاجتوں کے پورا ہونے کے ساتھ صحیح و سالم واپس پلٹیں گے ، اسی کا ساتھ ساتھ ہمیں امید ہے کہ اس عظیم اور اخلاص سے بھرے ہوئے اجتماع کی برکت سے خداوندعالم اس آگ کو بھی بجھا دے گا جو اسلامی ممالک میں دشمنوں نے روشن کررکھی ہے اور تمام اسلامی ممالک کی امنیت واپس آجائے گی ۔