دہشت گردی کامقولہ عصر حاضر کے لئے بہت بڑا خطرہ اور چیلنج سمجھا جا رہا ہے (١) ۔ آج بغیر کسی دلیل کے دہشت گرد ،انسانی معاشرہ کو دھمکی دے رہے ہیں ، یہاں تک کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ عام لوگوں پر بھی حملہ کررہے ہیں (٢) ۔
لہذا یہ دعوی کرنا صحیح ہوگا کہ بین الاقوامی دہشت گردی کے خطروں کے علاوہ، دہشت گردی کے بحران نے اپنی نوعیت کی مشکلات اور پریشانیوں کو عالمی سلامتی کے لئے کئی گنا زیادہ کردیا ہے (٣) کیونکہ اسلام کے دشمن بہانہ کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ اسلام کو ایک رکاوٹ کے طور پر اپنے راستہ سے ہٹا دیں (٤) لہذا آج اس کے لئے اہم ترین ا ور بہترین موضوع دہشت گردی کے مسئلہ کو بیان کرنا ہے جبکہ بہت ہی مختصر گروہ جیسے وہابی اور تکفیری دہشت گرد جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ان کواس بہانہ کا موقع فراہم کرتے ہیں (٥) ۔
اس تفسیر کے ساتھ دہشت گردی کے بحران سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ العالی) کے بہترین افکار و نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے ان مسائل کے تجزیہ کی ضرورت ہے تاکہ جلد از جلد تشدد ، انتہا پسندی اور دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ کی نوعیت کو بیان کیا جاسکے اور ان سے مقابلہ کرنے میں ہمارے اقدامات موثر ثابت ہوسکیں ،لہذا ہم یہاں پر کچھ مسائل کو بیان کر رہے ہیں :
دہشت گردی سے جنگ میں مغرب کی منافقت کوبے نقاب کرنے کی ضرورت
آج کی دنیا میں دہشت گردی سے جنگ کا لفظ ایسا حق کلمہ ہے جو اکثر وبیشتر آج کے ظالم و جابر حکمرانوں کی زبانوں پر جاری ہے ، لیکن وہ اس سے باطل اور غلط کاموں کا ارادہ کرتے ہیں اور جو بھی حقائق کی تحریف اور شیطنت آمیز توجیہات میں سب سے زیادہ مہارت رکھتا ہے وہ اپنے نامشروع مقاصد تک پہنچنے میں زیادہ کامیاب ہوجاتا ہے اور اس جگہ پر علمائے الہی اور قوم و ملت کے با ایمان دانشوروں کی ذمہ داری زیادہ ہوجاتی ہے ، یہ علماء اور دانشور دوسرے تمام لوگوں کو ضروری باتیں بتائیں اور عام لوگوں کی علمی معلومات کو زیادہ کریں تاکہ ظالم حکمراں اورتباہ کار گروہ ،حق باتیںبیان کرکے ان سے باطل کا ارادہ نہ کرسکیں اور اس طرح اپنی خودسرانہ حکومت کی بنیادوں کو محکم کرسکیں (٦) ۔
اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ اسلام کے دشمن جن کی سرپرستی امریکہ اور اسرائیل کر رہے ہیں وہ اپنے حامیوں کی اس طرح کے جرائم انجام دینے میں حوصلہ افزائی کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ جنگ شروع کی جاسکے (٧) ۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ دہشت گردوں کے حقیقی حامی ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں اور امریکہ کا صدر کئی مرتبہ ایران کو دہشت گردوں کا خطرناک حامی بیان کرچکا ہے ، یقینا اس قدر جھوٹ بولنا بہت ہی شرم کی بات ہے کیونکہ ہم خود دہشت گردی کا مقابلہ کررہے ہیں اور اس میں قربانیاں دے رہے ہیں (٨) ۔
البتہ اہل مغرب کا اس قدر جھوٹ بولنا اس بات کا سبب بنا ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور حامیوں کے نزدیک بھی بے اعتبار ہوگئے ہیں (٩) ۔ کیونکہ اگر بعض مغربی ممالک ان کی مالی، فوجی اور اسلحہ کے ذریعہ حمایت نہ کرتے تو داعش اور ان کے جیسے گروہ کو زندہ رہنے،جرائم اور وسیع پیمانہ پر قتل و غارت کرنے کا موقع نہ ملتا (١٠) ۔ داعش اور دہشت گردوں کے متعلق جو لوگ خبریں دیتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی ہر طرف سے امداد اور حمایت کی جاتی ہے ، اگر یہ حمایت اور امداد نہ ہوتی توان کو نیست و نابود کرنا سخت کام نہیں تھا (١١) ۔
اس مسئلہ کی وضاحت میں یہ کہنا ضروری ہے کہ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی کی بنیاد رکھنے والے خود اس گروہ کے جرائم اور حوادث کی مذمت کرتے ہیں یعنی یہ لوگ حقیقت میں خود ا پنی مذمت کرتے ہیں (١٢) ۔ کیونکہ ایک طرف تو امریکہ داعش کی تربیت کے لئے اپنے کارندوں کوبھیجتا ہے اور دوسری طرف سعودی عرب اور دوسرے ممالک داعش کو پیسہ اور اسلحہ دیتے ہیں، اسرائیل ہر طرف سے حمایت کرتا ہے ، ٹرکی ان سے غصبی تیل خریدتا ہے اور ان کو پیسہ دیتا ہے ، اگر یہ سب کام انجام نہ پائیں تو یقینا یہ نیست و نابود ہوجائیں گے (١٣) ۔
اسی وجہ سے اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ یوروب والے اعتماد کے قابل نہیں ہیں ، ان کے پاس منطق نہیں ہے اور ان کے کاموں میں کوئی حساب وکتاب نہیں ہے ، جو ان کا دل چاہتا ہے اسی پر عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے (١٤) ۔
اب اس اہم چلنج کو دور کرنے کیلئے آج کی دنیا میں موجود میڈیا سے استفادہ کرنا چاہئے اور ان کو طاقتور بنانا چاہئے ، کیونکہ پوری دنیا میں ایران اس وقت سب سے زیادہ دہشت گردی سے جنگ کر رہا ہے لیکن استکباری طاقتیں میڈیا کے پروپگنڈہ کے ذریعہ اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ ایران دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے (١٥) ۔
لہذا اگر مسلمان طاقتور میڈیا قائم کریں تو وہ دنیا کے عمومی ذہنوں میں نفوذ کرسکتے ہیں اور دہشت گردی کے سلسلہ میں دشمنوں کے بہت سے پروپیکنڈہ کو ظاہر کرکے بے اثر کرسکتے ہیں (١٦) ۔
اچھی دہشت گردی اور بری دہشت گردی کی ذلت آمیز حکمت عملی سے مقابلہ کی ضرورت
ظاہر سی بات ہے کہ جرائم پیشہ امریکہ مکاری کے مرکب پر سوار ہو کر دہشت گردی کے مسائل اور اس بزرگ چلنچ کو سب کے سامنے پیش کرکے پوری دنیا پر حملے کررہا ہے اور سلامتی کونسل اوراقوام متحدہ کی قرار دادوں کی کوئی پروا نہیں کر رہا ہے اور صریح طور پر کہتا ہے : جن کاموں سے ہمارے فائدوں کو تقویت پہنچتی ہے ،ہم ان کاموں کو انجام دیں گے ، چاہے اقوام متحدہ مخالفت ہی کیوں نہ کرے ! ہمارے فائدے ہمیں بتاتے ہیں کہ پوری دنیا میں کتنے گروہ دہشت گرد ہیں اور کون سے گروہ دہشت گردی سے خارج ہیں ! ہمارے فائدے معین کرتے ہیں کہ کتنے ممالک میں شرارت کے عنصر پائے جاتے ہیں اور کتنے ممالک میں نہیں پائے جاتے (١٧) ۔
مثال کے طور پر چونکہ حزب اللہ لبنان اپنے وطن سے دفاع کرتی ہے لہذا ہم اس کو دہشت گرد کا خطاب دیتے ہیں ، لیکن جو دہشت گرد شام میں بچوں، بوڑھوں ، عورتوں اور مردوں کو خاک و خون میں غلطاں کر رہے ہیں اور ہسپتال، مساجد، علمی مراکز اور گھروں کو نیست و نابود کررہے ہیں وہ دہشت گرد نہیں ہیں اوران کی مددکرنے کی ضرورت ہے اور ان کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ دیا جائے (١٨) ۔
لہذا اس طرح امریکہ منافقین اور دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے اور ان کو امریکہ کی شہریت دے رہا ہے ، لیکن یہ جان لینا چاہئے کہ یہ اپنے مادی اور خاص فائدوں کے پیچھے ہیں اور ان کے لئے دہشت گردی سے جنگ اور حقوق بشر سے دفاع ہرگز اہم نہیں ہے ، یہاں تک کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ شام،عراق اور افغانستان میں مشہور دہشت گردوں کو امریکہ کی شہریت دیدے (١٩) ۔
بہرحال مغربی اور اسرائیلی میڈیا کی تخریب کاری کے باوجود انشاء اللہ ایک روز تمام پردے ہٹ جائیں گے اور تاریخ فیصلہ کرے گی اور یقینا امریکہ اوراس کے ساتھ متحد ممالک جیسے سعودی عرب، ٹرکی اور قطر جو کہ دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں ،تاریخ میں ذلیل و رسوا ہوں گے (٢٠) ۔
دہشت گردی کی نابودی اور اضمحلال میں مقاومت کا اہم کردار
بے شک امریکہ اور مغرب، دہشت گردی کی حمایت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ شام کی حکومت کو ختم کرکے اس ملک کو کئی حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور مقاومت کو ضعیف کرنا چاہتے ہیں ، استکباری طاقتیں اس کوشش میں ہیں کہ غیر مستقیم مقاومت کو نقصان پہنچائیں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جنگ کرنے پر آمادہ کردیں اور اسرائیل سے مسلمانوں کی دشمنی کو دوسری طرف منحرف کردیں (٢١) ۔
لیکن مغربی طاقتوں کے اس غلط رویہ سے مقابلہ کا راستہ وہی ہے جو ایران، شام ، عراق اور حزب اللہ نے مقاومت کے ذریعہ طے کیا ہے (٢٢) ۔
تکفیر کی نفی ، دہشت گردی کی نفی کا پیش خیمہ ہے
اس اہم مسئلہ کی وضاحت میں کہنا چاہئے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ تکفیر کا مذموم اور غلط وجود، وہابی اور سلفی اسلام کا نامطلوب نتیجہ ہے جس نے دنیا کے بہت سے لوگوں کے ذہنوں کو تشدد سے ملا دیا ہے اور اسلام کے مخالفین کو ایک بہانہ دیدیا ، یہاں تک کہ بہت سے ممالک نے مسلمانوں کو ''انسانوں کا قاتل '' کہنا شروع کردیا ، اگر چہ امریکہ اور اسرائیل کے غلط پروپیگنڈہ نے بھی اس میں بہت مدد کی ، جبکہ اسلام صلح ، عدالت اور محبت کا پیغام لایا تھا اور آج بھی انہی چیزوں کی دعوت دے رہا ہے (٢٣) ۔
لہذا آج کی بنی نوع انسانی کی سب سے بڑی مصیبت یہ تکفیری گروہ ہیں جو ہر طرح کے دین اور قومیت سے مبرا ہیں ہم اس خطرہ کوکئی سال سے بیان کررہے ہیں (٢٤) ۔ ان تمام اوصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے داعش کو شدت پسند وہابیت کی ناجائز اولاد کہنا چاہئے اور علمی اورفکری لحاظ سے تکفیریوں اور داعش کے گروہوں سے مقابلہ کرنا چاہئے (٢٥) ۔ اب ہم کہتے ہیں کہ وہ سعودی جو سب سے زیادہ قرآن کریم کو منتشر کرتے ہیں ان سے پوچھنا چاہئے کہ تم قرآن کریم پر کس قدر عمل کرتے ہو ؟ کیا ایسے دہشت گردوں کی حمایت کرنا صحیح ہے جو بے خطا مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں ؟ (٢٦) ۔ کیا دہشت گردوں کی حمایت کرنا اور ایسے بے رحم اور انسانوں کے قاتلوں کی مدد کرنا صحیح ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ایسے لوگ شام، عراق ، یمن اور دوسرے اسلامی ممالک میںعام لوگوں کا خون بہا رہے ہیں ؟ (٢٧) ۔یہ قوم بہت ہی جرائم پیشہ ،دہشت گرد اور انسانیت کے قاتل ہیں جو اسلام کے کسی بھی قانون پر پابند نہیں ہیں ،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی شیعہ اور اہل سنت کے عقائد سے وجود میں نہیںآئی ہے بلکہ تکفیری دہشت گردی افراطی وہابیت کے غلط افکار اورنظریات کا نتیجہ ہے (٢٨) ۔
اس طرح دہشت گردی سے وجود میں آنے والے تمام حوادث کی جڑ کو وہابیت میں تلاش کریں ، سعودی عرب کے اسکولوں کا تعلیمی نصاب ہمارے پاس لائے تھے ہم نے اس میں دیکھا ہے کہ انہوں نے صاف صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ قبروں کی زیارت کرنے والے مشرک ہیں اور ان کی جان، مال اورخون مباح ہے اور اس میں شیعہ اور اہل سنت دونوں شامل ہیں کیونکہ اہل سنت بھی قبروں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں (٢٩) ۔ لہذا سعودی حکومت کو مخاطب کرکے کہنا چاہئے : تمہارے تعلیمی نصاب کی تمام کتابیں تکفیری تعلیمات سے بھری ہوئی ہیںاور پھر تم خود اس کی مذمت کرتے ہو ؟ اپنے خبیث مدارس کے دروازوں کو بند کردو کیونکہ یہ تعالیم خبیثہ ، تکفیر اور دہشت گردی کو منتشر کر رہی ہے (٣٠) ۔
اس بناء پر ''داعش '' اور ''النصرة'' جو کہ مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں ، وہابیت کے شجرہ خبیثہ کا نتیجہ ہیں (٣١) ۔
دہشت گردی کے مقابلہ میں علمائے اسلام کانمایاں کردار
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ داعش کا وجود امریکہ اور مغرب کے فائدہ میں ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ جو چیز ان کے فائدہ میں ہے وہ اس کو ختم نہیں کریں گے (٣٢) ۔ لیکن اگر علمائے اسلام کی مدد سے تکفیری دہشت گرد گروہوں کی فکری بنیادوں پر حملہ کیا جائے تو وہ اپنے گروہ میں عضو بنانے اور دوسرے پروگراموں میں پریشان ہوجائیں گے (٣٣) لہذا علمائے اسلام کو قدم بڑھانا چاہئے اور تکفیری دہشت گردوں کی اعتقادی بنیادوں کو سست بنا دیں یعنی وہابیت کی تعلیمات پر تنقید کریں اور فریاد کریں کہ ان کی کارکردگی اور اعمال کا اسلام اور قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے (٣٤) ۔
جی ہاں ! علمائے اسلام کب تک خاموش رہیں گے ؟ اورکب تک اس گروہ کے ہاتھوں اسلام کو ''دین خشونت'' سے پہچنوایا جاتا رہے گا اور اسلام ومسلمین کی عزت پر حملہ ہوتا رہے گا اورکب تک اسلامی عطوفت اور رحمت پر علامت سوال لگتا رہے گا ؟ کیا وہ وقت نہیں آیا ہے کہ اسلام کے بزرگ علماء ایک کمیٹی تشکیل دیں اوراس کام کے لئے چارہ جوئی کریں ؟ (٣٥) ۔
اگر بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ تکفیری دہشت گردوں کا ہدف شیعوں کو قتل کرنا ہے تو عراق اور شام میں دہشت گردوں کے جرائم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کی نظر میں شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ، بلکہ اس دن سے ڈرنا چاہئے جب اسلام اور دہشت گردی کو ایک دوسرے کا مترادف کہا جائے گا(٣٦) ۔
لہذا بدیہی سی بات ہے کہ اگردہشت گردی اور داعش سے مقابلہ میں دینی مراجع کی ہوشیاری اور اسلامی جمہوریہ ایران کی خالصانہ مدد نہ ہوتی تو معلوم نہیں تھا کہ آج عراق اور شام کی کیا حالت ہوتی ،لیکن مرجعیت کے فتاوی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مدد سے جنگ کا ورق پلٹ گیا (٣٧) اس کے علاوہ اہل سنت کے علماء اور دانشوروں نے بھی دہشت گردوں سے اپنا منہ موڑ لیا لیکن وہابی علماء نے اُلٹے سیدے بیان دے کر اپنی عزت و آبرو کوخاک میں ملا دی اور بہترین بات یہی ہے کہ انتہا پسندی اور داعشی افکار سے علنی طور پر برائت کا اظہار کرنا ہی عزت اور وقار ہے(٣٨) ۔
یقیناتاریخ دہشت گردوں کی اور ان لوگوں کی مذمت کرے گی جنہوں نے شام کے بے گناہ لوگوں کو ہسپتال،مدارس اور یونیورسٹیوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور قرضاوی جیسے علماء نے ان حقیقت پر اپنی آنکھوں کوبند رکھا ہے ،ان کا نام ہمیشہ تاریخ میں ذلت اور خواری کے ساتھ ثبت ہوجائے گا (٣٩) ۔
وہابی علماء ''عدم تکفیر'' کے عنوان سے ایک کنفرانس منعقد کریں تاکہ یہ بات کہہ سکیں کہ ہم داعش سے جدا ہیں ،لیکن وہ یمن کی جنگ میں سعودی حکمرانوں کے ساتھ شریک ہوگئے ہیںاوریمنی مسلمانوں کے خون کوبہانا جائز سمجھتے ہیں ،یہاں تک کہ سعودی عرب کا مفتی اعظم یمن کے مسلمانوںپر تکفیر کا حکم لگاتا ہے (٤٠) ۔ جی ہاں ! تمہارے اوپر مذہبی عالم کا عنوان لگا ہوا ہے کس طرح تم بنیادوں کی طرف توجہ کئے بغیر ظاہری طور پر مذمت کرنے پر اکتفاء کرتے ہو ، یہ بات جان لو کہ یہ مسائل تمہارا دامن بھی پکڑ لیں گے (٤١) ۔
دہشت گردی کی نابودی میں امت اسلامی کے اتحادکی اہم ضرورت
دہشت گردی سے مقابلہ کرنے میں امت اسلامی کے اتحاد کی ضرورت کے متعلق کہنا چاہئے کہ اسلام دہشت گردی کا مخالف ہے ۔ دہشت گردی جس جگہ بھی ہو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور اس کا نامشروع وجود دینی اوراسلامی تعلیمات کے مخالف ہے (٤٢) ۔ یقینا یہ مسائل دین اسلام کے خلاف ہیں اوراسلام نے کبھی بھی ان تکفیریوں کی موافقت نہیں کی ہے اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے (٤٣) ۔
اس بناء پر اسلام تمام لوگوں کے مقابلہ میں دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے ،شہر مقدس قم ،مصر اور شام میںمختلف کنفرانس کا منعقد ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے (٤٤) ۔ لہذا امت اسلامی بیدار ہوجائے اور سب متحد ہو جائیں ،اگر ہم سب متحد ہوجائیں تو ان تکفیریوں اور دہشت گردوں کو نیست ونابود کرنا ہم مسلمانوں کیلئے کوئی سخت کام نہیں ہے ، افسوس کی بات ہے کہ بعض اسلامی ممالک ان کی ہر طرح سے حمایت کررہے ہیں (٤٥)۔
مغرب کا تشدد اور قتل کی حمایت نہ کرنا دہشت گردی کی نابودی کا سبب ہوگا
افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض اسلامی و عربی ممالک،ان کے حکمران اور اسی طرح مغرب، امریکہ اور اسرائیلی حقوق بشر کا دعوی کرنے والے دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیںجس کی وجہ سے ہم آج عراق ، شام اور یمن میں خوفناک مناظر دیکھ رہے ہیں (٤٦) ۔
اس طرح داعش کی سعودی عرب اور قطر مالی لحاظ سے مدد کرتا ہے اور امریکہ، اسرائیل اور غرب ان کو اسلحہ دیتا ہے اور ٹرکی اس میں آگ بھڑکانے کا کام کرتا ہے اور ان کو دوسری امداد پہنچاتا ہے (٤٧) ۔
لہذا دہشت گردی سے جھوٹا مقابلہ کرنے والوں سے کہنا چاہئے کہ ضروری نہیں ہے کہ تم سب جمع ہوجائو اور ایک گروہ تشکیل دو ، داعش سے مقابلہ اس کے اہل پر چھوڑ دو ،تم اس کام کے لائق نہیں ہو ، فقط تم ان کی مدد نہ کرو یہی کافی ہے (٤٨) ۔ اگر جرائم پیشہ دہشت گردوں کی مدد نہ کی جائے تو یہ ایک مہینہ بھی اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکتے اور دہشت گردی کی بنیادیں ختم ہوجائیں گی (٤٩) ۔
ہمیں امید ہے کہ مغرب اور دوسرے ممالک کو جو دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں ، عقل آجائے اور وہ ان کی حمایت کرنا چھوڑ دیں ، ان کی اگر حمایت نہ کی جائے توبہت جلد ختم ہوجائیں گے ،لیکن جب ان کو ہوائی جہاز سے اسلحہ اور کھانا دیا جاتا ہے تو ان کا نفوذ اور زیادہ ہوجاتا ہے (٥٠) ۔
دہشت گردی سے انسانی معاشرہ کی ہمہ گیر مخالفت کی ضرورت
جس وقت دنیا میں دہشت گردی کا دروازہ کھلتا ہے اور میڈیا سے اس کی حمایت ہوتی ہے تو دوسری جگہ پر بھی وہاں کے لوگ سیکھ لیتے ہیں ، ناراض اور افراطی لوگ سب جگہ پر موجودہیں اور وہ ان کے کاموں پر عمل کرتے ہوئے ویسے ہی کام انجام دیتے ہیں لیکن اگر پوری دنیا دہشت گردی کی مخالف ہوجائے تو کوئی بھی اس طرح کا کام کرنے کی کوشش نہیں کرے گا (٥١) ۔ اس بناء پر پوری دنیا کے لوگ اپنے ممالک میں امنیت کو واپس لانے کیلئے دہشت گردی سے مقابلہ کریں (٥٢) ۔
مثال کے طور پر فرانس کے حکمرانوں کو جان لینا چاہئے کہ انہوں نے اپنی استکباری دور میں اسلامی ممالک پر جو جرائم انجام دئیے تھے ،وہ ابھی فراموش نہیں ہوئے ہیں اوراسلامی ممالک میں ان کے بہت زیادہ فائدے موجود ہیں ، یہ لوگ ہمیشہ ''امنیت کی ضرورت '' اور ''دہشت گردی'' سے مقابلہ کا دم بھرتے ہیں ،لیکن روزانہ ناامنی اور دہشت گردی کے نئے طریقوں کو اپناتے ہیں (٥٣) ۔ انہیں جان لینا چاہئے کہ جن لوگوں نے اس گروہ کی تربیت کی تھی وہ خود ان کے جال میں پھنس گئے ہیں ۔
آخری بات :
اس مقالہ کے اختتام پر کہنا چاہئے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے حامیوں کو امت اسلام اور بے گناہ لوگوں سے خیانت کی تلافی کرنا پڑے گی اور یہ خود اسی گڑھے میں گریں گے (٥٥) یقینا یہ دل کے اندھے جرائم پیشہ لوگوں کو ان کے اعمال کی سزا ملے گی (٥٦) ۔
لہذ١ ہم دہشت گردوں کے حامیوں یعنی ترکی، سعودی عرب ،قطر ، امریکہ اور اسرائیل کے حکمرانوں سے کہتے ہیں : تمہیں انسانیت کے خلاف اس قدر ناپاک جرائم انجام دینے سے شرم کرنا چاہئے ، تم جن لوگوں کی حمایت کرتے ہو وہ انسانیت کے کسی بھی معیار پر پورے نہیں اترتے (٥٧) ۔ مطمئن رہو وہ بہت جلد سعودی عرب اور اپنے دوسرے حامیوں کے ساتھ وہی سلوک کریںگے جو اس وقت دوسرے ممالک کے ساتھ کر رہے ہیں ، لیکن چونکہ ان کو ابھی آل سعود ، قطر اور ٹرکی کی ضرورت ہے اس لئے وہ خاموش ہیں (٥٨) ۔
البتہ جنگ کی آگ اسلامی ممالک میں محدود نہیں رہے گی (٥٩)آج کی دنیا ایک دہکدہ میں تبدیل ہوگئی ہے ،ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک جگہ بدامنی ہو اور دوسری جگہ امنیت اور چین وسکون ہو(٦٠) بلکہ پیرس میں دہشت گردی کے حوادث اور جرائم کے بعد پورے یوروپ میں وحشت پھیل گئی ہے ،ا لبتہ اس کی شعلہ یوروپ اور غیر یوروپ کے دوسرے حصوں میں بھی جائیں گے(٦١) ۔
لہذا دہشت گردی کے حامیوں کو جان لینا چاہئے کہ جس سانپ کی تم نے پرورش کی ہے وہ خود تمہیں بھی ڈنک مارے گا اور یہ مصیبت ،تکفیری دہشت گردوں کے حامیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی (٦٢) ۔
حوالہ جات
[1] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی، در دیدار اعضای دفتر مطالعات بین المللی مبارزه با تروریسم، http://makarem.ir.
[2] گذشتہ حوالہ.
[3] گذشتہ حوالہ.
[4] گذشتہ حوالہ.
[5] گذشتہ حوالہ.
[6] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج2 ؛ ص440.
[7] تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں حجر بن عدی کی قبر منہدم ہونے پر معظم لہ کا بیان ، 1392/02/14.
[8] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی، درس خارج فقه، مسجد اعظم قم، 1383/11/19.
[9] گذشتہ حوالہ.
[10] کیتھولک دنیا کے رہبر ، فرنسس پادری کے نام معظم لہ کا پیغام ، 1393/06/03.
[11] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی، درس خارج فقه ،مسجد اعظم قم 1394/08/24.
[12] گذشتہ حوالہ.
[13] گذشتہ حوالہ.
[14] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی، جلسه تفسیر قرآن کریم ، حرم کریمه اهل بیت(ع)،1392/05/02.
[15] بیانات حضرت آیتالله العظمی مکارم شیرازی در دیدار معاون وزیر امور خارجه، 1394/05/06.
[16] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی، در دیدار اعضای دفتر مطالعات بین المللی مبارزه با تروریسم، http://makarem.ir.
[17] والاترين بندگان ؛ ص81 .
[18] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی، جلسه تفسیر قرآن کریم ، حرم کریمه اهل بیت(ع)،1392/05/06.
[19] بیانات حضرت آیت الله العظمى مکارم شیرازى، در دیدار دادستان کل کشور و دبیر کنگره شیخ بهاءالدین بهایى، http://makarem.ir.
[20] ایران میں شام کے سفیر سے ملاقات کے دوران حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی کا بیان ،1392/01/27.
[21] گذشتہ حوالہ.
[22] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ،مسجد اعظم قم، 1393/07/09.
[23] وهابيت بر سر دو راهى ؛ ص30.
[24] کیتھولک دنیا کے رہبر ، فرنسس پادری کے نام معظم لہ کا پیغام ، 1393/06/04.
[25] سرلشکر رحیم صفوی اورسپاه پاسداران انقلاب اسلامی کے بعض کماندروں سے ملاقات کے دوران حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی کا بیان،1393/12/12.
[26] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی ، مدرسه امیرالمومنین(ع)، http://makarem.ir.
[27] گذشتہ حوالہ.
[28] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ، مسجد اعظم قم،1393/07/09.
[29] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ، مسجد اعظم قم،139.
[30] گذشتہ حوالہ.
[31] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ، مسجد اعظم قم، http://makarem.ir.
[32] سرلشکر رحیم صفوی اورسپاه پاسداران انقلاب اسلامی کے بعض کماندروں سے ملاقات کے دوران حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی کا بیان،12/12/1393.
[33] گذشتہ حوالہ.
[34] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ،مسجد اعظم قم، 1393/07/09.
[35] مزارات مقدسه کی تخریب کے بارے میں سعودی علماء کے فتاوی پر معظم له کا بیان، 1386/04/31.
[36] گذشتہ حوالہ.
[37] سرلشکر رحیم صفوی اورسپاه پاسداران انقلاب اسلامی کے بعض کماندروں سے ملاقات کے دوران حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی کا بیان ،1393/12/12.
[38] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ، مسجد اعظم قم، http://makarem.ir.
[39] ایران میں شام کے سفیر سے ملاقات کے دوران حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی کا بیان ، 1392/01/27.
[40] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ، مسجد اعظم قم، http://makarem.ir.
[41] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ، مسجد اعظم قم، 1394/03/03.
[42] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ، مسجد اعظم قم،1393 /11/12.
[43] گذشتہ حوالہ.
[44] گذشتہ حوالہ.
[45] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ، مسجد اعظم قم،1394/08/25.
[46] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی، جلسه تقسیر قرآن کریم، شبستان امام خمینی(ره)، حرم مطهر حضرت معصومه(س)، http://makarem.ir.
[47] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ،مسجد اعظم قم، 1393/07/09.
[48] گذشتہ حوالہ.
[49] بیانات حضرت آیت الله مکارم شیرازی درباره اهانت به مقدسات، هفته نامه صبح صادق/شماره684.
[50] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ، مسجد اعظم قم، 1394/08/25.
[51] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ، مسجد اعظم قم، 1392/01/28.
[52] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی، در دیدار اعضای دفتر مطالعات بین المللی مبارزه با تروریسم، http://makarem.ir.
[53] فرانس میں مسئله حجاب کے سلسله میں حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی کا بیان، http://makarem.ir.
[54] سپاه پاسداران انقلاب اسلامی کے بعض کماندروں سے ملاقات کے دوران حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی کا بیان، 1393/08/22.
[55] ایران میں شام کے سفیر سے ملاقات کے دوران حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی کا بیان ،139.
[56] تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں حجر بن عدی کی قبر منہدم ہونے پر معظم لہ کا بیان،1392/02/14.
[57] گذشتہ حوالہ.
[58] ایران میں شام کے سفیر سے ملاقات کے دوران حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی کا بیان ،1392/01/27.
[59] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی،درس خارج فقه ، مسجد اعظم قم، http://makarem.ir.
[60] گذشتہ حوالہ.
[61] گذشتہ حوالہ.
[62] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی، درس خارج فقه ،مسجد اعظم قم 1394/08/24.