امام حسین علیہ السلام کے قیام میں موت کی خصوصیات

امام حسین علیہ السلام کے قیام میں موت کی خصوصیات


تاریخ کربلا کے درخشاں لمحات عزت کی زندگی اور عزت و عظمت کی موت کو بیان کرتے ہیں اور یہ وہی سبق ہے جوا مام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے روز میدان کربلا میں دنیا کو دیا ہے ۔‌

موت کا خیال ، موت کو یاد کرنا ، یا موت کے لئے آمادہ ہونا (١) انسان کی تربیت اور گناہوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بہترین راستہ ہے (٢) ۔ امیدوں کو کم کرنے اور اپنی بصیرت کو کمال پر پہنچانے کے ذریعہ یہ ہدف حاصل ہوجاتا ہے (٣) لیکن امام حسین علیہ السلام کے قیام میں ''موت کی یاد'' کو کئی مرتبہ واضح طور پر دیکھا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقالہ میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (دام ظلہ) کے نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے قیام حسینی میں موت کی اہم خصوصیات کو قارئین کے سامنے پیش کرر ہے ہیں :

موت کی بنیادی خصوصیت آخرت کی طرف مائل ہونا

موت کی بنیادی اور اہم خصوصیات یہ ہیں کہ جن لوگوں میں یہ صفت پائی جاتی ہے وہ ہمیشہ دوسری دنیا کو یاد کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کی فکریں دنیا کی چند روزہ زندگی اور اس کی لذتوں میں محدود نہیں ہوتیں اور وہ اس نابود ہوجانے والی زندگی کے پیچھے نعمتوں سے بھری ہوئی جاوید زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کی کوشش کرتے رہتے ہیں (٤) ۔

آخرت اور موت کے جدا نہ ہونے والے ارتباط کی وضاحت میں امام حسین علیہ السلام کے ایک صحابی ''حنظلہ'' کے سوال کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے ،انہوں نے پوچھا : کیا میں آخرت کی طرف جانے میں جلدی نہ کروں اور اپنے بھائیوں سے ملحق ہونے کی کوشش نہ کروں '' ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : '' رُح الی خیر من الدنیا و ما فیھا و الی ملک لا یبلی'' ۔ دنیا اور جو کچھ اس میں موجود ہے اس سے بہتر دنیا کی طرف جانے میں جلدی کرو ، وہ ایسی حکومت ہے جو کبھی پرانی نہیں ہوتی (٥) ۔

 اسی طرح ''نفس المہوم'' کی تعبیر کے مطابق امام حسین علیہ السلام نے حضرت علی اصغر (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد فرمایا : '' یا نفس اصبری فیما اصابک، الھی تری ما حل بنا فی العاجل فاجعل ذلک ذخیرة لنا فی الاجل'' ۔ اے نفس ! ان تمام مصیبتوں کے سامنے صبر کر ، خدا یا ! تو دیکھ رہا ہے کہ اس فنا ہوجانے والی دنیا میں ہمارے اوپر کس قدر مصائب پڑے ہیں ، پس ان کو ہماری آخرت کے لئے ذخیرہ کر لے (٦) ۔ (٧) ۔

ایک دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :  خدایا ! اگر دنیا میں ہماری کامیابی سے دریغ کیا ہے تو اس کو ہماری آخرت کے لئے ذخیرہ قرار دے اور ظالموں سے ہمارا انتقام لے (٨) ۔

موت کا خیال شجاعت کو قوی کرتا ہے

یہ بات بھی واضح ہے کہ موت پر مسکرانا اور شہادت کے وقت چہروں کا نورانی ہوجانا صرف انہی لوگوں کے لئے آسان ہوتا ہے جو اپنے پورے وجود سے اپنے معشوق کا انتظار کر رہے ہوں (٩) متعدد احادیث میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ عقلمند اور سعادت مند شخص وہ ہے جو موت کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے ۔ موت کو یاد کرنے سے مشکلیں حل ہوجاتی ہیں (١٠) ... جس وقت انسان موت کو یاد کرتا ہے تو وہ ہلکا ہوجاتا ہے اور چونکہ ہر شخص کی عاقبت موت ہے اور جس چیز کا انجام یہی ہو ، اس کو ناراض نہیں ہونا چاہئے (١١) ۔

اس سلسلہ میں امام علی بن الحسین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :  (روز عاشورا ' جس وقت امام حسین علیہ السلام پر سخت وقت آیا تو آپ کے ساتھیوں نے دیکھا کہ خطرہ کے وقت جب لوگوں کے چہروں کا رنگ اُڑ جاتا ہے اور لوگ کانپنے لگتے ہیں، اس وقت امام حسین علیہ السلام اور ان کے خاص صحابیوں کے چہرہ نور سے چمک رہے تھے اور ان کے دل مطمئن تھے اوران میں سے بعض دوسرے لوگوں سے کہتے تھے : ان کی طرف دیکھو ، انہیں موت کا کوئی خیال نہیں ہے ۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا : ''صبرا بنی الکرام ، فما الموت الا قطرة تعبر بکم عن البوس و الضراء الی الجنان الواسعة والنعیم الدائمة '' ۔  اے بزرگوں کے بیٹوں ! موت فقط ایک زینہ ہے جو تمہیں سختیوں اور پریشانیوں سے ہمیشہ باقی رہنے والی بہشت کی طرف لے جاتا ہے (١٢) ۔

موت کے سایہ میں شہادت طلبی

امام حسین علیہ السلام کے قیام میں شہادت طلبی کا نظریہ اس قدر واضح اور درخشاں تھا کہ اس کو اس طرح بیان کرنا چاہئے : اس بدن پر افسوس ہے جو بستر بیماری پر مرجائے ! کتنا بہتر ہوتا جو خدا کی راہ میں اپنے خون میں غلطاں ہوتا اور شہدا کی صفوں میں شامل ہوجاتا ! (١٣) ۔ دوسری طرف یہ مسئلہ بتاتا ہے کہ امام علیہ السلام نے بہت ہی افتخار کے ساتھ شہادت کا استقبال کیا اور کسی سے نہیں ڈرے (١٤) ۔

لہذا آپ نے فرمایا :  اگر یہ بدن موت کے لئے خلق ہوئے ہیں تو خدا کی راہ میں تلواروں کی ضربات کے نیچے شہادت بہتر ہے (١٥) ۔ ایسے حالات میں مومن پر لازم ہے کہ اپنے پروردگار کے دیدار کا عاشق ہو ۔ میرے یقین کے مطابق (خدا کی راہ میں) موت سعادت ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا ذلت و خواری ہے (١٦) ۔ (١٧) ۔

اس موضوع کی وضاحت میں کہنا چاہئے کہ تاریخ عاشورا میں پڑھتے ہیں کہ دشمن کا حلقہ جس قدر تنگ ہوتا جاتا تھا ، امام حسین اور ان کے اصحاب پر جس قدر بھی فشار بڑھتا جاتا تھا ، ان کے چہرے نورانی ہوتے جاتے تھے ، یہاں تک کہ صبح عاشورا بوڑھے لوگ بھی ہنس رہے تھے ۔ جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا : ہم اس لئے ہنس رہے ہیں کہ کچھ ہی دیر میں شربت شہادت نوش کرنے والے ہیں (١٨) ۔

یہی وجہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : '' .... خط الموت علی ولد آدم مخط القلادة علی جید الفتاة و و ما اولھنی الی اسلافی اشتیاق یعقوب الی یوسف ....'' ۔ (آگاہ ہوجائو ) انسان کی گردن میں موت کا قلادہ وہی گردن بند ہے جو جوان لڑکیوں کے گلے میں ہوتا ہے (یعنی موت ہمیشہ انسان کے ساتھ ہے) اپنے بزرگوں (والدین ،نانا اور بھائی) سے ملاقات کا اشتیاق مجھے اسی قدر ہے جس قدر یعقوب کو یوسف سے ملنے کا اشتیاق تھا (١٩) (٢٠) ۔

 موت کی یاد سے عزت کا حاصل ہونا

یہ بات بھی واضح ہے کہ موت ، عزت اور افتخار کا سبب ہوتی ہے (٢١) جن لوگوں نے محلوں میں رہتے ہوئے ذلت کی زندگی پر تلوار و خنجر کے نیچے عزت کی موت ترجیح دی ہے انہوں نے کبھی بھی ان کلمات میں شک و تردید نہیں کی (٢٢) لہذا امام علیہ السلام نے متعدد جگہ پر فرمایا :  ہم کبھی بھی عزت کی موت پر ذلیل اور پست لوگوں کے حکم کو ترجیح نہیں دیں گے ... میں اپنے اسی خاندان اور بہت کم یار و مددگاروں کے ساتھ تم سے جنگ کروں گا (اور میں شہادت کے لئے تیار ہوں ) (٢٣) ۔

موت کا خیال ذلت کی نفی کرتا ہے

یقینا قیام امام حسین علیہ السلام کی بارز خصوصیت یہ ہے کہ وہ ذلت کو قبول نہیں کرتے (٢٤) ۔ ''ھیھات منا الذلة'' کا نعرہ (٢٥) اسی طرح ''......عربی....'' ۔ کا نعرہ (خدا کی قسم ! میں تمہیں ذلت کے ہاتھ میں نہیں دوں گا اور نہ غلاموں کی طرح فرار کروں گا (٢٦) ) ہمیشہ تاریخ میں دہرایا جاتا رہے گا (٢٧) ۔

امام حسین علیہ السلام نے اپنے کلام میں موت کی یاد اور اس سے خوف وہراس نہ رکھنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : '' لَيْسَ شَأْنِي شَأْنُ مَنْ يَخافُ الْمَوْتَ، ما اهْوَنَ الْمَوْتِ عَلى‏ سَبيلِ نَيْلِ الْعِزِّ وَ إِحْياءِ الْحَقِّ، لَيْسَ الْمُوتُ فِي سَبيلِ الْعِزِّ إِلّا حَياةً خالِدَةً وَ لَيْسَتِ الْحَياةُ مَعَ الذُّلِّ إِلّا الْمَوْتَ الَّذِي لا حَياةَ مَعَهُ، افَبِالْمَوْتِ تُخَوِّفُنِي، هَيْهاتَ طاشَ سَهْمُكَ وَ خابَ ظَنُّكَ لَسْتُ اخافُ الْمَوْتَ، انَّ نَفْسِي لَأَكْبَرُ مِنْ ذلِكَ وَ هِمَّتِي لَأَعْلى‏ مِنْ أَنْ أَحْمِلَ الضَّيْمَ خَوْفاً مِنَ الْمَوْتِ وَ هَلْ تَقْدِرُونَ عَلى‏ اكْثَرَ مِنْ قَتْلي؟! مَرْحَباً بِالْقَتْلِ فِي سَبيلِ اللَّهِ، وَ لكِنَّكُمْ لا تَقْدِرُونَ عَلى‏ هَدْمِ مَجْدي وَ مَحْوِ عِزِّي وَ شَرَفِي فَإِذا لا أُبالِي بِالْقَتْلِ‏».'' ۔

 موت سے ڈرنا میری شان نہیں ہے ! عزت تک پہنچنے اور حق کو زندہ کرنے میں مرنا کس قدر آسان ہے ؟ ! جی ہاں ، عزت اور سربلندی کے راستہ میں مرنے سے ہمیشہ کی زندگی مل جاتی ہے ! اور ذلت کی زندگی موت کے علاوہ کچھ نہیں ہے (٢٨) ۔ کیا تم مجھے موت سے ڈراتے ہو ؟ ھیھات ! تمہاراہدف بیکار گیا اور تمہارا خیال بیہودہ ہے ! میں وہ نہیں ہوں جو موت سے ڈرے ، میری روح بہت بڑی اور میری ہمت اس سے کہیں زیادہ ہے کہ میں موت کے ڈر سے ظلم و ستم کو قبول کرلوں (٢٩) ۔ کیا تم قتل کرنے سے زیادہ کچھ کر سکتے ہوو ؟ ! خدا کی راہ میں قتل ہونا بھی سعادت ہے ! لیکن تم میری عظمت، عزت اور شرافت کو نابود نہیں کرسکتے اور جب ایسا ہے تو مجھے قتل ہونے کا کوئی ڈر نہیں ہے ! (٣٠) (٣١) ۔

خدا کے دین کو زندہ کرنے میں موت کا کردار

دین خدا کو زندہ کرنے اور ظالموں سے جنگ کرنے میں موت کی یاد کو بہترین سبب شمار کیا جاتا ہے ،اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ قیام عاشورا نے دین خدا کو زندہ کرنے کے علاوہ اسلام کی رشد ونما میں بہت زیادہ اضافہ کیا اور اس سے مسلمان بیدار ہوگئے ۔

اس کے علاوہ قیام عاشورا نے بتادیا کہ امام نے اپنے سرخ خون سے آزاد لوگوں کے لئے ایک مکتب کی بنیاد رکھی اور اس طرح موت اور شہادت کے مسئلہ کو بہت ہی آسان اور افتخار آمیز بنا دیا (٣٤) ۔

 گناہوں سے دوری موت کو یاد کرنے کی اہم خصوصیت

یقینا موت کو یاد کرکے انسان گناہوں سے بچ سکتا ہے (٣٥) کیونکہ موت کی طرف توجہ اور زندگی کے اختتام سے ہوشیاری ،انسان کو گناہوں سے منع کرتی ہے۔اسی طرح موت کی یاد ، بیداری اور گناہوں سے توبہ کا سبب قرار پاتی ہے (٣٧) ۔ اس مسئلہ کو ''حر بن ریاحی کی توبہ میںبہت اچھی طرح سے دیکھ سکتے ہیں ، ''ابن کثیر'' کے مطابق جس وقت ''حر'' ، امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے توعرض کیا : اب میں توبہ کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں اور میرا ارادہ ہے کہ موت آنے تک آپ کی حمایت کرتا رہوں اور آپ کے پیروں میں قتل ہوجائوں(٣٨) ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جو چیز موحدین کو مادیت سے دور کرتی ہے وہ موت کا خیال ہے ۔ موحدین موت کو دوسری ولادت سمجھتے ہیں اور اس کو نئی زندگی کا آغاز قرار دیتے ہیں اور ان کی نظر میں موت ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے جو دنیا کے قید خانہ سے آزاد ہوجاتے ہیں اور آخرت کی وسیع دنیا میں قدم رکھتے ہیں ، لیکن مادیت کو دوست رکھنے والے موت کو ہر چیز کا اختتام سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے وہ اپنے بزرگ اقدار کو قربان کرنے کے لئے حاضر نہیں ہوتے ہیں (٣٩) ۔

اس بناء پر ہمیں موت کو زیادہ یاد کرنا چاہئے اور کوئی دن ایسا نہیں ہونا چاہئے جب موت کو یاد نہ کریں ، لہذا امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی بے نظیر شجاعت کو جو کہ تاریخ میں زرین روشنائی سے ثبت ہوچکی ہے ، موت پر مستحکم ایمان رکھنے میں تلاش کرنا چاہئے ۔

موت کی یاد اور ولایت

دنیا کی تاریخ کی ورق گردانی کریں ، کیا شب عاشور جیسا واقعہ نظر آتا ہے ، ایسی رات جس میں لوگوں کا راہنما اور لشکر کمانڈر اپنے تمام سپاہیوں اور سرداروں کو ہلاکت سے نجات پانے کا حکم دے رہا ہو اور وہ لوگ بھی موت کا علم و یقین رکھتے ہوئے بہت ہی افتخار کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کررہے ہوں اور کہہ رہے ہوں کہ ایک جان نہیں بلکہ اگر ہزار مرتبہ زندہ کیا جائے تو ہم پر قربان ہوتے رہیں گے (٤١( !

 

موت کی یاد غفلت کو دور کردیتی ہے

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موت کی یاد غفلت کے پردوں کو پھاڑ دیتی ہے اوراس لحاظ سے یہ بہت بڑی نعمت ہے اور دنیوی زندگی کے لئے ایک متنبہ کرنے والی ہے ، اگر یہ باقی رہے تو یقینا انسان کو افسوس ہوتا ہے اوروہ تھک جاتا ہے ، یہ آخرت کی زندگی کی طرح نشاط آور اور خوشحال رکھنے والی نہیں ہے ۔ لہذا یہ کہنا پڑے گا کہ ہوشیار ترین شخص وہ ہے جو ہر چیز سے زیادہ موت کو یاد رکھے اور اپنے آپ کو موت کے لئے تیار کرلے ۔

آخری بات

موت کی یاد انسان کی تربیت کرتی ہے ۔ اگر موت نہ ہوتی تو زندگی کرنا بہت مشکل تھا ،بلکہ موت کی یاد خدا کی بزرگ نعمت ہے (٤٦) ۔ موت کی یاد سے اپنے نفس کوذلیل کیا جاسکتا ہے '' و ذللہ بذکر الموت'' ۔ موت کی یاد کے ذریعہ اس پر قابو رکھو ۔ اس صورت میں غفلت اور غرور کے پردے انسان کی آنکھوں اور دل پر نہیں پڑتے (٤٧) ۔ امام علیہ السلام بہت ہی صراحت کے ساتھ شہادت اور بہشت کی طرف پروار کرنے کی خبر دیتے ہیں اور آپ کے اصحاب موت کے شوق میں گریہ فرماتے ہیں اور خوشحال ہوجاتے ہیں ،تاریخ کربلا میں یہ باعظمت لمحات شرافت مندانہ زندگی کو قائم کرتے ہیں (٤٨) اور یہ وہی درس ہے جو امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے روز کربلا کے میدان میں سب کو دیا ہے (٤٩) ۔

حوالہ جات:

١۔  تفسیر نمونہ ، جلد ٢٤ ، صفحہ ٣١٨ ۔

٢ ۔  انوار ہدایت ، مجموعہ مباحث اخلاقی ، صفحہ ١٢٠ ۔

٣ ۔  اخلاق در قرآن ، جلد ٢ ، صفحہ ١٩٤ ۔

٤ ۔  قہرمان توحید ، شرح و تفسیر آیات مربوط بہ حضرت ابراہیم(ع) ، صفحہ ٢١٣ ۔

٥ ۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ، رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ ٤٦٥ ۔

٦ ۔  معالی السبطین ، جلد ١ ، صفحہ ٤١٩ ۔

٧ ۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ، رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ٤٩٩ ۔

٨۔  ینابیع المودة ، جلد ٣ ، صفحہ ٧٧ ۔

٩ ۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ، رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ٥١٣ ۔

١٠ ۔  انوار ہدایت ، مجموعہ مباحث اخلاقی ، صفحہ ٢١٧ ۔

١١ ۔  انوار ہدایت ، مجموعہ مباحث اخلاقی ، صفحہ ٢١٧ ۔

١٢ ۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ، رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ ٥١٤ ۔

١٣ ۔  گزشتہ حوالہ ،صفحہ ٥١٩ ۔

١٤ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

١٥ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ ٣٦٢ ۔

١٦ ۔  بحارالانوار ، جلد ٤٤، صفحہ ٣٨١ ۔ تاریخ طبری ، جلد ٤ ، صفحہ ٣٠٥ ۔

١٧ ۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ، رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ٣٦٥ ۔

١٨ ۔  انوار ہدایت ، مجموعہ مباحث اخلاقی ، صفحہ ١٠٣ ۔

١٩ ۔  ملہوف (لہوف) ، صفحہ ١٢٦ ۔ بحارالانوار ، جلد ٤٦ ، صفحہ ٣٦٦ و ٣٦٧ ۔

٢٠ ۔  گزشتہ حوالہ، صفحہ٣٤٩ ۔

٢١ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ٣٧٠ ۔

٢٢ ۔ گزشتہ حوالہ ، صفحہ٤٢٥۔

٢٣ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ٤٢٣ ۔

٢٤ ۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ، رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ ٣٢ ۔

٢٥ ۔  احتجاج طبرسی ، جلد ٢ ، صفحہ ٩٩ ۔

٢٦ ۔  ارشاد مفید ، صفحہ ٤٥٠ ۔

٢٧ ۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ، رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ ٣٢ ۔

٢٨ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ ٣٧٠ ۔

٢٩ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

٣٠ ۔  احقاق الحق ، جلد ١ ، صفحہ ٦٠١ ۔ اعیان الشیعہ ، جلد ١ ، صفحہ ٥٨١ ۔

٣١ ۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا، رویدادھا ، پیامدھا، صفحہ ٣٧١ ۔

٣٢ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ ٦٥٥ ۔

٣٣ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

٣٤ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ ٦٥٦ ۔

٣٥ ۔  انوار ہدایت ، مجموعہ مباحث اخلاقی ، صفحہ ١٢١ ۔

٣٦ ۔  پیام امام امیرالمومنین علیہ السلام ، جلد ٤ ،صفحہ ٣٥٣ ۔

٣٧ ۔  گزشتہ حوالہ ، جلد ١٢ ، صفحہ ٢٧٩ ۔

٣٨ ۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا، صفحہ ٤٣٩ ۔

٣٩ ۔  انوار ہدایت ، مجموعہ مباحث اخلاقی، ١٠٤ ۔

٤٠ ۔  پیام قرآن ، جلد ٥ ، صفحہ ٣٢٧ ۔

٤١ ۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ، رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ ٣٩٨ ۔

٤٢ ۔  تفسیر نمونہ ، جلد ٢٦ ، صفحہ ١٤١ ۔

٤٣ ۔  پیام امام امیرالمومنین علیہ السلام ، جلد ٤ ، صفحہ ٣٥٣ ۔

٤٤ ۔  امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے اسی دن سے لوگوں کو بیدار کرنا شروع کردیا اور دشمن کی ایک عورت نے جس کا تعلق قبیلہ بکر بن وائل سے تھا، انتقام کی فریاد لگائی اور ''یا لثارات رسول اللہ'' کے نعرہ کے ذریعہ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے انتقام لینے کے لئے لوگوں کو ترغیب دلائی اور اس کے بعد متعدد قیام رونما ہوئے ، یہاں تک کہ بنی امیہ کی حکومت ختم ہوگئی (سوگنامہ آل محمد ، صفحہ ٥٣٣) ۔

٤٥ ۔  اہداف قیام حسینی ، صفحہ ٧٩ ۔

٤٦ ۔  انوار ہدایت ، مجموعہ مباحث اخلاقی ، صفحہ ٢١٩ ۔

٤٧ ۔  گزشتہ حوالہ ، صفحہ ٢٩ ۔

٤٨ ۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ، رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ ٤٧٤۔

٤٩ ۔  پیام امام امیرالمومنین علیہ السلام ، جلد ٢ ، صفحہ ٢١٨ ۔

منابع و مآخذ:
تنظیم و ترتیب اور تحقیق   ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی طرف سے اہل قلم کی ایک جماعت
دفتر حضرت ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی دام ظلہ www.makarem.ir
captcha