معظم لہ کی نظر میں ''انتظار '' کے معنی میں غور وفکر

معظم لہ کی نظر میں ''انتظار '' کے معنی میں غور وفکر


مفہوم انتظار میں سیر / انتظار کا نقطہ آغاز ، فطرت ہے / دنیا ، عدالت کے انتظار میں ہے ، عدالت، حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے انتظار میں/ انتظار کی حقیقی علامت، عقلانیت/ حضرت مہدی (عج) کے ظہور کا انتظار، صلح و امنیت کے لئے نوید بخش ہے ۔‌

ممکن ہے یہ سوال پیش آئے کہ مستقبل میں دنیائے بشریت کے لئے انتظار، آج کے لوگوں کوکیا فائدہ پہنچا سکتا ہے ؟ جبکہ ہم آج ہزاروں مشکلات اور پریشانیوں میں گرفتار ہیں اور ان مشکلات پر کامیابی کے لئے غور وفکر کرنا چاہئے ، ہمیں مستقبل اور انتظار سے کیا مطلب ہے؟ مستقبل آکر رہے گا، چاہے اچھا ہو یا خراب ،جو اس دن تک زندہ رہیں گے وہ اس سے فائدے اٹھائیں گے اور جو چلے جائیں گے خدا ان پر رحمت کرے ! بہرحال اس مسئلہ کا ہماری موجودہ زندگی پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑے گا (١) ۔

لیکن اس بات کو وہ لوگ کہتے ہیں جو ہمیشہ حوادث کو بہت ہی نچلی نظر سے دیکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ آج کل سے بہتر ہے اور کل کی بات الگ ہے اور دنیا کو پراکندہ اور ایک دوسرے سے الگ الگ سمجھتے ہیں (٢) ۔

لیکن اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ''آج کے حوادث'' کی جڑیں گزشتہ میں پوشیدہ ہیں اور مستقبل کو موجودہ زمانہ بناتا ہے اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوے کہ ''تاریک'' (٣) یا ''درخشاں'' مستقبل کا فوری انعکاس ہمارے حوادث کے مقابلہ میں موجود ہے، واضح ہوجاتا ہے کہ ہمیں کم سے کم موجودہ زندگی کی خاطر گزشتہ اور مستقبل کی تحقیق کرنا چاہئے اور ہم بہت جلد دیکھیں گے کہ کس حد تک یہ بزرگ انتظار ہمارے لئے فائدہ بخش ہے (٤) ۔

اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض مکاتب فکر نے اس قضیہ کے مثبت پہلو ہی کا انکار نہیں کیا ہے بلکہ وضاحت کی ہے کہ ایسے مستقبل کا انتظار کرناہماری موجودہ اجتماعی طاقت کی کارکردگی میں منفی اثرات رکھتا ہے ، لہذا ان کا عقیدہ ہے کہ ایک روشن مستقبل کے وجود پرایمان ، شکست خوردہ طبقہ رکھتا ہے جو کہ اکثر وبیشتر مذہبی شکل میں خود نمائی کرتی ہے (٥)۔

دوسری طرف بعض کوتاہ فکر ،مسئلہ انتظار سے سوء استفادہ کرتے ہیں اور اس عنوان سے کہ ہم ایسے ظہور کے منتظر ہیں جو اپنی تمام ذمہ داریوں کو اپنے کندھوں سے اتار دیتا ہے اور ان سب کی جگہ مسئلہ انتظار کو زبان کی سطح تک محدود کردیا ہے (٦)۔

اگرچہ یہ شک وشبہات خود انسانی معاشرہ کی زندگی میں اصل انتظار کو واضح کرتے ہیں اور اس کے معنی کی وسعت اور مفہوم کو بتاتے ہیں ،اس بناء پر معنی انتظار(٧) کی حقیقت کو واضح کرنے سے موجودہ شک و شبہات ختم ہوسکتے ہیں (٨) ۔

 

مفہوم انتظار میں سیر

''انتظار'' کا مادہ ''نظر'' ہے اور یہ عام طور سے کسی شخص کی ایسی حالت کو کہا جاتا ہے جو موجودہ حالت سے ناراض ہو اور بہتر حالت ایجاد کرنے کی کوشش کرتا ہے(٩) ۔

مثال کے طور پر وہ بیماری جس کے اچھے ہونا کاانتظار ہو رہا ہے ، یا وہ والد جو سفر سے اپنے بیٹے کی واپسی کا انتظار کررہا ہے ، وہ اپنی مشکلات سے ناراض ہیں اور بہتر حالت کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔ اسی طرح وہ تاجر جو بازار سے ناراض ہے اور اقتصادی بحران کے ختم ہونے کے انتظار میں ہے ، اس کی دو حالتیں ہیں ''موجودہ حالت سے بیگانگی'' اور بہتر حالت کے لئے کوشش کرنا'' (١٠) ۔

اس بناء پر حکومت حق اور عدالت ''مہدی'' علیہ السلام کے انتظار کا مسئلہ اور مصلح جہان کا قیام حقیقت میں دو عنصر سے مرکب ہے ، عنصر ''نفی'' اور عنصر ''اثبات'' (١١) ۔

''عنصر نفی'' وہی موجودہ حالت سے بیگانگی اور ''عنصر اثبات'' بہتر حالت کی خواہش کو کہا جاتا ہے ، اگر انسان کی روح میں یہ دونوں پہلو حلول کرجائیںتو ان دونوں اعمال کے وجود کو وسعت مل جائے گی (١٢) ۔

یہ دونوں اعمال عبارت ہیں : ظلم و فساد کی کسی بھی طرح مدد نہ کرنا یہاں تک کہ لڑائی اور جھگڑوں کو بھی ترک کرنااور ایک بہت بڑی حکومت قائم کرنے کے لئے جسمی، روحی ، مادی اورمعنوی طور سے آمادگی کرنا۔ یہ دونوں باتیں بہت ہی بہترین ہیں اور تحرک، بیداری او رآگاہی کا سبب ہیں (١٣) ۔

 

انتظار کا نقطہ آغاز، فطرت

انسان اپنی عقل کے حکم اور فطرت کے الہام کی وجہ سے روشن مستقبل کی طرف غور وفکر کرتا ہے ، ایسا مستقبل جو موجودہ زمانہ سے بالکل الگ ہوگا اور آج کی یہ سب تاریکیاں اس پر اثر انداز نہیں ہوںگی (١٤) ۔

لہذا ایک بہت بڑی حکومت کے ظہور کے انتظار کا مسئلہ جوکہ صلح و امنیت، چین و سکون اور عدالت کو پوری دنیا میں پھیلا دے گی ، بہت سخت نہیں ہے بلکہ روح انسانی کے تمام پہلوئوں میں اصیل ترین اور عمیق ترین جڑوں کی طرح پھیلی ہوئی ہے ، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاے کہ یہ انتظار انسان کی فطرت کے اندر میں ٹھاٹے مارتے ہوئے سمندر کی طرح ہے اور یہ انسان کی ذات سے وجو د میں آتا ہے (١٥) ۔

فطرت ، وہی الہام اور داخلی درک و افہام ہے جس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ، یعنی بغیر کسی استدلال اور دلیل کے انسان قبول کرلیتا ہے اوراس پر ایمان لے آتا ہے (١٦) ۔ اس طرح کے باطنی الہامات صرف خدا شناسی کے مسئلہ ہی میں نہیں پائے جاتے بلکہ تمام مذہبی اعتقادات میں ہمارے لئے راہنما ثابت ہوسکتے ہیں اور انتظار کے معنی میں بھی فطرت کا کردار بنیادی ہے (١٧) ۔

اس طرح کے داخلی الہامات کو اکثر و بیشتر ''غریزہ'' کہا جاتا ہے ، غرایز کی دنیا کبھی کبھی اس قدر تعجب آور ہوتی ہے کہ انسان ترقی یافتہ صنعتی اور الیکٹرکی وسائل کے باوجود اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے (١٨) ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس طرح عقلی اور منطقی دلیلیں انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اوراس کی روح و جان کے اندر بہت سی کشش اور جاذبہ پیدا کردیتی ہیں جس سے وہ اپنی سمت کو معین کرلیتا ہے ،اسی طرح ''غریزہ'' کا فلسفہ بھی یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے مسائل میں ہمیشہ عقل اورمنطق کے انتظار میںنہیں بیٹھ سکتا ، کیونکہ اس کی وجہ سے کبھی کبھی بہت ضروری کاموں کو ترک کرنا پڑجاتا ہے ، مثلا انسان اگر کھانا کھانے یا ہمبستری کرنے کرنے کے لئے ''تناسل اور توالد کے طریقہ سے نسل کو باقی رکھنے کے لازمی ہونے کا '' الہام حاصل کرنا چاہتا اوراس کے مطابق حرکت کرتا تو بہت پہلے منقرض ہوچکا ہوتا ، لیکن غریزہ اور جنسی جاذبیت ایک طرف اور بھوک کی اشتہا دوسری طرف اس کو اس ہدف کی طرف کھینچتی اور جس قدر بھی زندگی کے ہدف ضروری اورعمومی ہوتے ہیں ، یہ جاذبہ بھی اسی قدر طاقت ور ہوتا ہے (١٩) ۔

لہذا غریزہ انسان کے اندر فطرت کی صورت میں بہت ہی آگاہانہ طور پرعمل کرتی ہے یعنی یہ داخلی جاذبہ اس کی عقل اور فکر میں اثر انداز ہوتا ہے اور اس کو اپنا راستہ انتخاب کرنے پر مجبور کرتا ہے (٢٠) ۔

یہی وجہ ہے کہ خدا گرئی اور خدا پرستی ایک فطرت کی صورت میں تمام انسانوں کی روح و جان میں سمائی ہوئی ہے

 

آخری بات :  حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے ظہور کا انتظار صلح و امنیت کے لئے نوید بخش ہے۔

اس بحث کے اختتام پر یہ کہنا ضروری ہے کہ ایسی دنیا میں جہاں ظلم و شر در و دیوار سے نکل رہا ہے اور سب ظلم و جور اور ستم سے تھک چکے ہیں اور رہبر و راہنما کی تلاش میں ہیں ان کے لئے اس کے ظہور کی امید اور انتظار ، صلح و عدالت اور امن و امان کے لئے نوید بخش ہے ، سب لوگ اپنے طریقہ سے اس نجا ت دلانے والے کے انتظار میں ہے اور اس کی یاد چین و سکون کا سبب اور یاس و نا امیدی کو ختم کرنے کاسبب ہے اور اسی طرح اس کے ظہور کا راستہ فراہم ہوتا ہے ۔

اگر تمام انسان ایسے بزرگ مصلح کا انتظار کررہے ہیں جو دنیا کو صلح و عدالت اور نیکی سے بھر دے گا تو اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی معاشرہ کی تکمیل کے لئے ایسے کام کا ممکن اورعملی ہونا ضروری ہے جس کا عشق و انتظار ہماری روح و جان میں بسا ہوا ہے ۔

اس اعتقاد کی عمومیت تمام مذاہب میں پائی جاتی ہے جو اس کی اصلیت اور حقیقت پر دوسری دلیل ہے کیونکہ جس چیز میں خاص شرائط اور محدودیت پائی جاتی ہو وہ اس طرح عمومی نہیں ہوسکتی ۔ فقط فطری مسائل ایسے ہیں جن میں عمومیت پائی جاتی ہے اور یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ انسان کو عادت اورعواطف کی زبان سے یہ بات ان کی روح وجان میں سما دی گئی ہے کہ آخرکار ایک بہت بڑامصلح جہان اس دنیا کو صلح وعدالت کے پرچم کے نیچے جمع کردے گا۔

تہیہ و تنظیم اور تحقیق : آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی ہئیت تحریریہ

حکومت جہانی مہدی (عج) ، صفحہ ٨٩ ۔

 

captcha